منگل 11 مارچ 2025 - 03:58
گلشن اسلام کی خوشبو: ملیکة العرب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

حوزہ/ حضرت خدیجہ (س)، نبی اکرم (ص) کی پہلی محبت، مادر بتول، اور اسلام کی عظیم محسنہ ہیں، جنہوں نے اپنے مال و جان سے دین کی ترویج میں بے مثال قربانیاں دیں۔ آپ (س) کی خدمات کا بدلہ رسول اللہ (ص) نے غدیر میں ولایت علی (ع) کے اعلان کے ذریعے چکایا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | ملیکة العرب، ہمسر رسول، مادر بتول، غریبوں اور ناداروں کی پالن ہار، عظمتوں کا ہمالیائی پروت، فخر عرب، نبی رحمت کی پہلی محبت، عروسِ فکر مودت، محور انسانیت و شرافت، طہارت و نجابت کی ملکہ یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا۔

گلشنِ اسلام کو سینچا حضرت عمران علیہ السلام کے خون نے اور خوشبو کی طرح پھیلایا شہزادی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے۔ تاسیسِ اسلام اور ترویجِ اسلام میں دونوں ذاتوں کا برابر سے احسان رہا۔ مالِ خدیجہ (س) نے دیا تاسیس کے لیے، آلِ ابو طالب نے دی ترویج کے لیے۔

اس ملے جلے سنگم کے احسان کا بدلہ پیغمبر اسلام (ص) نے غدیر کے چوراہے پر چکایا، جب دستار "من کنت" سرِ اقدس شاہِ لا فتی پر سجائی۔ "طہ" کا تاجِ کرامت، "مزمل" کی قبا، "یاسین" کا شاہانہ پیراہن، "بشیر و نذیر" کے زیورات، "قل کفی" کا تکلم، "ھل آتی" کی عطا، "والفجر" کا رخ زیبا، "واللیل" کی کالی زلفیں، "والشمس" کی پیشانی، "والنجم" کی چشم بد دور، "والقمر" کا حسن، قرآن کا چہرہ، عترت کی صورت، ولایت کی وراثت کا وارث و امین۔

یہ سب کچھ "یا ایھا الرسول بلغ" (1) کے حکم ربانی کے سانچے میں ڈھلا، اور اس طرح کے صفاتِ جمال، جلال و کمال کو خطبہ غدیر کے سنہرے اوراق پر بکھیر کر "ھل جزاء الاحسان الا الاحسان" (2) کے فریضے کو ادا کر دیا۔

اب قیامت تک اسلام ان دو ذاتوں کا مرہون منت رہے گا۔ جب دنیا خون کو خاک میں ملانا چاہے گی تو قدرت خاک کو خاکِ شفا بنا کر افلاک کی عظمتوں سے بالا تر کر دے گی۔ جب خوشبو کو بکھیرنا چاہے گی تو قدرت پورے گلشن کی خوشبوؤں کو غیبت کے گلدستہ میں سمیٹ کر عترت کو قرآن کا وارث بنا کر محفوظ کر دے گی تاکہ رہتی دنیا تک خون و خوشبو کا احساس بیدار رہے اور ہر باشعور مسلمان کو کلمہ شہادتین میں دو گواہیوں کی بقا کی قربانیاں بھی یاد رہیں۔ ورنہ یہ دین کے ساتھ غداری ہوگی اور غدار نسل سفیان تو ہو سکتی ہے، مسلمان نہیں۔

ذکرِ خدیجہ (س) ایک الٰہی حکم

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اس عظیم ذات کا نام ہے جس کے ذکر کو قدرت نے اپنے رسول پر لازم قرار دیا:

"وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ" (3)

"فحدث" فعلِ امر ہے جو اس بات کو درشاتا ہے کہ ذکرِ خدیجہ (س) ایک ذاتی محبت یا قلبی لگاؤ نہیں بلکہ حکمِ الٰہی ہے۔ لہٰذا رسول اللہ (ص) نے اس فریضے کو حسن و خوبی سے انجام دیا۔ جب کسی حاسد، کینہ پرور سیاسی زوجہ نے مدح خدیجہ (س) پر اعتراض کیا تو نبی کریم (ص) کی پیشانی پر جلال کے آثار نمایاں ہوئے اور فرمایا:

"خَدِيجَةُ وَ أَينَ‏ مِثْلُ‏ خَدِيجَةَ صَدَّقَتْنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ آزَرَتْنِي عَلَى دِينِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِي عَلَيهِ بِمَالِهَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَب‏" (4)

(خدیجہ! اور کون خدیجہ کی طرح ہو سکتا ہے! اس نے اس وقت میری تصدیق کی، جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے۔ دینِ خدا پر اس نے میری مدد کی اور اپنے تمام مال کے ساتھ میری حمایت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں خدیجہ (س) کو جنت میں ایک ایسے محل کی بشارت دوں جو زمرد کا ہوگا، جہاں نہ کوئی تکلیف ہوگی اور نہ کوئی زحمت!)

حضرت خدیجہ (س) کا صبر و ایثار

یہ وہ شہزادی ہیں جنہوں نے شعبِ ابی طالب میں سخت ترین دن گزارے مگر لبوں پر شکوہ نہیں آیا، ہمیشہ شکر ہی کیا۔ وہ رانی و ملکہ جو دولت و ثروت کے شیش محل میں پلی تھیں، مگر کبھی کوئی طلب نہ کی، جبکہ سیاسی زوجائیں ہمیشہ خواہشوں کا کٹورا لیے پیغمبرِ اسلام (ص) سے بھیک مانگتی رہیں۔

جب فتحِ خیبر کے بعد مال آیا تو "رال ٹپکنے" کا ذکر قرآن نے بھی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ مگر ٹیڑھے دل والیوں کا شفاف قلبِ مطہر سے کیا مقابلہ؟

"هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ" (5)

خدیجہ (س) کی عظمت اور دیگر ازواج

خدیجہ (س) کی بصارت و بصیرت کہاں اور "فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا" (6) کی مصداق کون؟

کیا ذرہ کا مقابلہ سورج سے ہو سکتا ہے؟

کیا خزانے کا موازنہ کھوٹے سکے سے کیا جا سکتا ہے؟

حضرت خدیجہ (س) ثروت کا وہ بے بہا خزانہ تھیں جسے راہِ خدا میں پیش کیا گیا تاکہ اسلام پروان چڑھے، جبکہ راہ کے کھوٹے سکوں کو نبوت نے سیاست کی مجبوری میں گھر میں پناہ دی تاکہ اسلام کو سازشوں اور سوزشوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

لہٰذا حضرت خدیجہ (س) اس عدیم المثال ذات کا نام ہے جس کا مقابلہ کسی بھی خاتون سے ممکن نہیں!

خاتونِ طاہرہ

جس سرزمین پر بچیوں کو زندہ دفن کرنا فخر سمجھا جاتا تھا، جہاں عورت کا کوئی مقام و وقار نہ تھا، وہاں حضرت خدیجہ (س) کو "طاہرہ" کہا جاتا تھا۔ یہ قدرت کا نظام تھا کہ آیتِ تطہیر کے نزول سے پہلے ہی آپ کا انتقال ہو گیا، ورنہ اگر کسی زوجہ کو بحیثیت "طاہرہ" آیت میں جگہ مل سکتی تو وہ صرف حضرت خدیجہ (س) کی ذاتِ والا صفات تھیں۔

نتیجہ

افسوس کہ کچھ لوگ صحیح کتابوں کے صحیح نام رکھ کر بھی صحیح در کی شناخت نہ کر سکے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں حضرت خدیجہ (س) کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات :

1)سورہ مائدہ :آیت 67

2) سورہ رحمن :آیت 60

3)سورہ الضحٰی :آیت 11

4)الموفق ابن احمد بن محمد المكي الخوارزمي (متوفي 568هـ)،

المناقب، ص 350 ، تحقيق : الشيخ مالك المحمودي مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط – بيروت) ؛ ج‏43 ؛ ص 131، دار إحياء التراث العربي – بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.)

5)سورہ الأنعام :آیت 50

6)سورہ التحريم :آیت 4

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha