۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے ، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے دسویں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
قال اللہ تبارک وتعالی:"وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ"؛
پروردگارعالم سورہ مبارکہ حدید آیت نمبر 10میں ارشاد فرما رہا ہے کہ برابر نہیں ہے وہ لوگ جو فتح مکہ سے پہلے اپنا مال راہ خدا میں خرچ کریں اور خدا کی راہ میں لڑیں ان لوگوں کے ساتھ جو اپنا مال فتح مکہ کے بعد خرچ کریں اور خدا کی راہ میں لڑیں یہاں پر پروردگار عالم دراصل اس سختی اور مشکل حالات کو ہمارے سامنے لا رہا ہے کہ جب انسان پر کوئی سخت حالت آجائے انسان پر کوئی مشکل وقت پڑے تو اس مشکل وقت پہ جو بندہ آپ کی مدد کرے گا اس کا درجہ اس بندے کے برابر نہیں ہے جو آپ کی آسانی اور آپ کی سہولت کے وقت آپ پر خرچ کریں اور آپ کا ساتھ دیں اس لئے کہ جب انسان خوشی کے عالم میں ہوتا ہے تو ہر ایک ساتھ دیتا ہے لیکن پتہ تب چلے گا جب مشکل حالات میں انسان کا کوئی ساتھ دے اور یہاں پر فتح مکہ اور بعداز فتح مکہ کی مثال لا رہا ہے یعنی فتح مکہ سے پہلے مکہ کے جو سخت حالات ہیں  مکہ میں جو تنگی ہے یہاں تک کہ اگر مکہ کی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کتنی مشکلات سے مسلمان گزرے ہیں لیکن اس وقت اگر مسلمانوں پہ کسی نے خرچ کیا ہو یا خدا کی راہ میں خرچ کیا ہو یا رسول اللہ پر کسی نے خرچ کیا ہو یا پیغمبر کے ساتھ جبھہ حق اور حق کی خاطر کسی نے کسی دشمن سے لڑائی کی ہو تو وہ ان لوگوں کے برابر نہیں جو مدینہ کی زندگی میں جہاں پر اسلامی حکومت بنی ہے وہاں پر خرچ کریں اور وہاں پر کسی سے لڑیں یہ دونوں برابر نہیں ہیں بلکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ مکی والے کو اعظم درجہ ہے اس مدینے والے پر، تو پیغمبر کی مشکلات میں کون لوگ نکلے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو تارہخ کہتی ہے عورتوں میں سب سے پہلی  خاتون نے ساتھ دیا اس کا نام ہے جناب خدیجہ اور مردوں میں سب سے پہلے جس نے ساتھ دیا اس کا نام ہے علی ابن ابی طالب (ع) اور یہ وہ دونوں شخصیتیں ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابھی رسالت کا اعلان نہیں ہوا بعثت کا اعلان نہیں ہوا پیغمبر آتے تھے کعبہ میں ان دونوں میں سے ایک دائیں طرف پیغمبر کے دوسرا بائیں طرف پیغمبر کے کھڑے ہو کر نماز جماعت یہ تین بندے قائم کرتے تھے تو دراصل سب سے پہلے جس نے پیغمبر کا کلمہ پڑھا اور پیغمبر پر ایمان لایا ان لوگوں کا اگر ہم جائزہ لیں تو مردوں میں جناب امیر المومنین ہے اور عورتوں میں جناب خدیجتہ الکبری ہے  اور قرآن نے کہا چونکہ مشکل حالات میں جو لڑے قاتلوا جو آیا یہ مکہ کی زندگی میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی تلوار کی البتہ اقتصادی جنگ لڑی ہے ثقافتی جنگ لڑی ہے اعتقادات کی جنگ لڑی گئی ہے مسلمانوں کے راستے کاٹے گئے ہیں یہاں تک کہ شعب ابی طالب میں تین سال تک پیغبر اور مسلمانوں کا مکمل محاصرہ کیا اور سوشل بائکاٹ کیا اور آپس میں معاہدہ لکھا کہ جو بھی پیغمبر یا اصحاب پیغمبر کے ساتھ اقتصادی تعلق رکھے یا ان تک غذائی سامان پہنچا دے تو سب اس شخص کا سوشل بائکاٹ کریں گے بعد میں پیغمبر نے ان کو خبر دی جس معاہدہ میں فقط میرا نام بچا ہے باقی تیرے معاہدے کو دیمک کھا گئی ہے تو واقعا ایسا ہوا ہے اس کے بعد یہ محاصرہ ختم ہوا لیکن تین سالہ عرصے میں مسلمانوں پر جو بھی خرچ ہوا وہ جناب خدیجہ کی دولت اور آپکا مال خرچ ہوا یہاں تک کہ بعض مورخین نے لکھا کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اس قدر جانفشانی اور جان نثاری کی کہ کئی ایام ایسے بھی گزرے کہ بلکل فاقہ کشی کی نوبت آگئی اور لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہوگئے اور ایک زہریلہ گھاس کھانے کی وجہ سے بعض نے لکھا کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا جسم کمزور ہوتے ہوتے آپ اسی وجہ سے اس دنیا سے رحلت کرگئی۔دراصل جناب خدیجہ نہیں اس وقت پیغمبر کی مدد کی جس وقت مدد کرنے والا نہیں تھا اور جناب خدیجہ کا کردار درخشاں ہے آپکا ماصی درخشاں ہے پیغمبر کو انتخاب کرنے کےلئے آپ نے اور ایک نئی رسم کی بنیاد ڈالی ہمارے ہاں رسم یہ ہے کہ اگر لڑکی پسند آجائے لڑکے کو لڑکی یا لڑکی کو لڑکا تو ہمیشہ پہل لڑکے والے کرتےہیں لیکن جناب خدیجہ کی بصیرت دیکھے جب ان کو پتہ چلا کہ پیغمبر کی سیرت کیا ہے پیغمبر کتنا پاکیزہ ہے جب پیغمبر کے احوال سے آپ واقف ہوگئی تو آپ نے اپنی طرف سے پیغمبر کو پیغام بیجھا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو یہ سیرت خود ایک رول ماڈل ہے جناب خدیجہ کی طرف سے ہمارے لئے کہ اگر طرف مقابل اگر قابل ہو بااعتماد ہو با صلاحیت ہوتو لڑکی والوں کی طرف سے بھی اس کےلئے خواستگاری اگر بیجھے تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے اور قرآن مجید میں اگر ہم سیرت خدیجہ کو دیکھنا چاہے تو سورہ مبارکہ ضحی کی آیت نمبر8 پروردگارعالم نے جناب خدیجہ کی دولت کو اپنی طرف نسبت دی ہے آپ قرآن میں نہیں لاسکیں گے کہ پروردگار نے کسی کافر کے فعل کو اپنی طرف نسبت دی ہو اسی سورہ میں ایک مرتبہ جناب ابی طالب کے فعل کو اپنی نسبت دی ہے الم یجدک یتیما فاوی یہاں پر پیغمبر کی یتیمی اور پیغمبر کی پرورش کے بارے میں فرمایا پیغمبر کی یتیمی جناب ابو طالب کے گھر میں جناب رسول خدا کہاں پلے جناب ابوطالب کی گود میں جناب پیغمبر کو پناہ دی ابوطالب نے لیکن خدا کہہ رہا ہے پناہ ہم نے دی یہاں سے پتہ چلتا ہے ابوطالب کے ایمان کا اور آپ کے اس معنوی اور الہی شخصیت کا جناب ابوطالب کی شخصیت کتنی عظیم ہے کہ پروردگار عام انکے کردار کو اپنا کردار کہہ رہا ہے اتنا بلند کردار ہے آپکا اور اسی طرح دوسرا کردار جناب خدیجہ کا ہے کہ خدا کہہ رہا ہے ووجدک عائلا فاغنی ہم نے آپکو محتاج پایا تو ہم نے آپکو غنی کر دیا یعنی پیغمبر کو جو دولت ملی وہ جناب خدیجہ کی دولت لیکن خدا کہہ رہا ہے یہ دولت ہماری ہے یہاں سے جناب خدیجہ کی شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے تو جناب خدیجہ وہ خاتون ہے کہ جس نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں لٹا دی یہ وہ خاتون ہے کہ جس نے اپنی ساری زندگی پیغمبر کے قدموں میں رہ کر گزاری اور یہ وہ فداکار خاتون ہے کہ جب پیغمبر چالیس دنوں کےلئے غار حرا گئے اور چالیس دن تک حضرت خدیجہ ہر روز غذا لے کر جاتی تھی پیغمبر کےلئے حالنکہ آپ کسی نوکر کے ساتھ بھی بھیج سکتی تھی لیکن یہ خدیجہ کی وفاداری ہے یہ خدیجہ کی محبت ہے رسول اللہ کے ساتھ اسی وجہ سے روایت میں آیا ہے کہ یسکن الیھا رسول اللہ پیغمبر کو جو سکون ملتا تھا وہ جناب خدیجہ سے ملتا تھا قرآن کی بات ہے کہ زوج کو زوجہ سے سکون اور قرار ملتاہےتو مورخین نے لکھا ہے کہ جناب پیغمبر کو خدیجہ کے پاس قرار ملتا تھا اور پیغمبر جناب خدیجہ سے شدید محبت فرماتے تھے یہی وہ وجہ جب تک خدیجہ زندہ رہی پیغمبر نے دوسری شادی نہیں کی اور جناب خدیجہ نے بھی کس قدر پیغمبر پر جانثاری کی اسی وجہ سے انکو جو مرتبہ ملا سیدہ نساء العالمین اربع عالمین کی سردار چار عورتیں ہیں ان میں سے ایک مریم ہے ایک آسیہ ہے اور دوسری دو ماں اور بیٹی ہے ایک خدیجہ ہے اور اسکی بیٹی فاطمہ ہے یہ چاروں ،عالمین کی عورتوں کی سردار ہے تو جناب خدیجہ کےلئے آیا خیر نساء العالمین تمام عالمین کی عورتوں سے بہتر ایک اور روایت میں آیا ہے افضل نساء العالمین تمام عالمین کی عورتوں سے افضل ہے جناب خدیجہ اتنا مرتبہ اتنا مقام جناب خدیجہ کو کیوں ملا اس وجہ سے جناب خدیجہ نے سب سے پہلے ایمان لا کر پیغمبر کی تصدیق کی یہی وجہ ہے ایک مرتبہ جناب عائشہ کھبی کبھار جناب خدیجہ کے نام آنے پر وہ عورتوں والی غیرت انکی جاگ جاتی تھی کان النبی اذا ذکر خدیجہ جب بھی پیغمبر کے پاس جناب خدیجہ کا تذکرہ ہوتا تو آپ بہترین الفاظ میں جناب خدیجہ کو یاد فرماتے تو جناب عائشہ کہتی ہے ایک دن میری غیرت جاگ گئی اور میں غیرتمند ہوگئی میں نے کہا آپ کیوں اس بوڑھی کو بار بار اس کی یاد آپکو ستا رہی ہے حالنکہ اللہ نے ان سے بہتر آپکو دیا ہے تو یہاں پر پیغمبر کا چہرہ سرخ ہوتا ہے اور پیغمبر حالت ناراحتی اور ناراضگی کی حالت میں ل فرماتے ہیں خدا نے مجھ خدیجہ سے بڑھ کر بہتر کوئی بیوی نہیں دی بلکہ سب سے بہتر ہی خدیجہ ہے جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو خدیجہ نے میرا اقرار کیا جب لوگوں نے میری رسالت کا انکار کیا تو خدیجہ نے ہی اقرار کیا جب لوگوں نے مجھے ٹکرایا تو خدیجہ نے مجھے سینے سے لگایا جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ نے میری تصدیق کی اتنی بامرتبہ بافضیلت شخصیت ہے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا  کی۔ جب لوگوں نے مجھے اپنی دولت سے محروم کیا تو خدیجہ نے اپنا مال مجھ پر خرچ کیا خدیجہ نے اپنی دولت مجھ پہ خرچ کیا جو کچھ خدیجہ کے پاس تھا وہ میرے قدموں میں رکھا تو کیسے خدیجہ اور دوسرے برابر ہے ہرگز نہیں اور اسی طرح فرمایا جب دوسری بیویوں سے اللہ نے مجھے فرزندوں سے محروم رکھا تو اللہ نے خدیجہ کے ذریعے مجھے اولاد دی یعنی میری جو نسل چلی قیامت تک وہ خدیجہ کے ذریعے چونکہ خدیجہ کا مرتبہ یہ ہے کہ خدیجہ جناب فاطمہ کی مادر گرامی ہے جناب خدیجہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے شب معراج کی رات پیغمبر جب پیغمبر معراج پر گئے تو جبریل نے کہا یا رسول اللہ اللہ خدیجہ کو سلام بیھج رہا ہے اور میرا سلام بھی خدیجہ تک پہنچا دیجئے  جس ہستی کےلئے اللہ سلام بیھج دے کیوں خدیجہ کا کردار نہ فقط اسلام میں اسلام لانے سے پہلے ازدواج پیغمبر سے پہلے خدیجہ کو جو لقب ملا تھا اس کافر معاشرے میں اس فساد اخلاقی والے معاشرے میں چونکہ وہاں عورتوں کی کوئی عزت نہیں تھی جہاں پر پاکدامن عورت کہیں پر نظر نہیں آتی تھیں جہاں پر عورتوں کو زندہ رکھنے سے درگور کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور انکے چہرے کالے ہوجاتے تھے انکے رنگ تبدیل ہوجاتے تھے اس عالم میں خدیجہ نے اپنے آپکو اتنا پاکیزہ رکھا کہ کافر معاشرہ خدیجہ کا لقب طاہرہ رکھ کے انکو طاہرہ کے نام سے پکارتے تھے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ کافر لوگ طاہرہ کہہ کے پکارے یہی وجہ ہے جب پیغمبر کےلئے  خواستگاری لے کرجناب ابوطالب چلے جناب خدیجہ کے عزیزو اقارب کے پاس تو آپ نے فرمایا کہ میرے ابن عم کےلئے جو میں خواستگاری لے کر آیا ہوں کس کی خواستگاری کہا کریمتکم تمہاری جو کریمہ ہے کریم جو مانگے بغیر دے اور خدیجہ کو ام الایتام بھی کہتے تھے چونکہ تمام مکے کے غریبوں اور یتیموں کی ماں تھی آپ ثروت کو یتیموں اور بیواوں پر خرچ کرتی تھی اسی وجہ سے آپکو ام الایتام کا بھی لقب دیا گیا اور یہی کریمہ کا لقب دو غیر معصوم ہستیوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جس طرح ہم کہتے ہیں امام حسن کےلئے کریمہ اہل بیت چونکہ دسترخواں بچھا ہوتا تھا جو جب چاہے اور جہاں سے آئے کھائے لیکن دو غیر معصوم ہستیوں کےلئے بھی لفظ کریمہ آیا ہے ایک جناب خدیجہ ہے اور دوسری شخصیت جناب معصومہ قم ہے انکو بھی جناب امام موسی کاظم علیہ السلام نے کریمہ اہل بیت کا لقب دیا اسی وجہ سے آج علمی ومادی رزق قم سے تقسیم ہو رہے ہیں پوری دنیا کےلئے اس کریمہ اہل بیت کے در سے ۔اس کریمہ کی وجہ سے جنت کا ایک دروازہ قم کی طرف کھلتا ہے اور قیامت کے دن تمام کے تمام شیعہ جناب فاطمہ معصومہ علیھا کی اکیلی کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل ہونگے اس کے بعد دو لقب کا اور اضافہ کیا الموصوف بالسخاء والعفہ دوسری صفت وہ سخی ہے اس کے در سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹتا اور تیسری صفت یہ ہے کہ وہ عفیفہ ہے پاکدامن ہے پاکیزہ ہے طاہرہ ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کی نسل اسی طاہرہ سے چلی اسی وجہ سے فرمایا اللہ نے میری نسل کو دوسری بیویوں سے حرام قرار دیا ہے نو بیویاں ہیں لیکن ایک فرزند ان سے نہیں ہے اور جناب فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا جو گیارہ اماموں کی مادر ہیں یعنی بارہ اماموں کو پالنے والی ذات کا نام ہے خدیجہ ۔خود مولا امیر المومنین کی تربیت بھی جناب خدیجہ نے کی اور جناب خدیجہ کا گھر وہ گھر ہے جہاں پر وحی کا نزول جہاں رسالت کا نزول نبوت کا نزول خدیجہ کے گھر سے معراج پیغمبر شروع خدیجہ کے گھر سے، کوثر قرآن کا وجود میں آنا ،خدیجہ کی شخصیت کو جاننے کےلئے یہی کافی ہے کہ جس سال خدیجہ کا انتقال ہوا میرے رسول نے پورے سال سوگ منایا یہ لوگ کہتے ہیں  امام حسین کا غم کیوں مناتے ہو؟ آپ کو کیا پیغمبر کا غم منانا نظر نہیں آتا امام حسین کو کس بے دردی سے شہید کیا لیکن جناب خدیجہ کو کسی نے شھید بھی نہیں کیا آپ رحلت کر جاتی ہے اس کے باوجود پیغمبر بہت روتے ہیں  مغموم ہوتے ہیں  ملنا جلنا بھی آپ چھوڑ دیتے ہیں  خدیجہ اور جناب ابوطالب کی وفات پیغمبر پر اس قدر سنگین ہے کہ پیغمبر نے پورا سال مسلمانوں کو غم منانے کا حکم دیا عام الحزن اس سال کا نام ہے یعنی غم کا سال، ماتم کا سال،عزاداری کا سال، یہ سب کچھ کیوں ؟خدیجہ کی جدائی کی وجہ سے اور تاریخ میں کوئی غیر معصوم ایسی ہستی نہیں ہے فقط ایک خدیجہ ایسی ہستی ہے کہ خدا جنت سے کفن بیھجتا ہے خدیجہ کےلئے یہ انوکھی شخصیت ہے کہ تاریخ میں جسے دوکفن ملے آج کل ہمارے معاشرے میں کوئی پیسہ والی خاتون آجائے تو شوہر کا جینا حرام کردے  شوہر کو نوکر کی جگے پر رکھے اس بیچارے کو گنجا کرکے رکھ دیتی ہے لیکن ایسی خواتین کےلئے جناب خدیجہ رول ماڈل ہے پیغمبر کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن خدیجہ کے پاس سب کچھ ہے۔کسی شاعر نے کہا تھا 
 اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک ضرب ید الہی ایک سجدہ شبیری
تو کسی دوسرےشاعر نے یوں کہا اسلام کے دامن میں دو اور بھی چیزیں ہیں سرمایہ خدیجہ ایمان ابوطالب ۔خدیجہ کا مال وثروت ، ایثار اور وفاداری سب نمونہ عمل ہیں ۔اپ کی زندگی درس حیات ہے آپ نے  جس قدر اپنے شوہر کا احترام کرے یہ آپکی اپنی ہی عزت ہے لیکن آپ شوہر کو ذلیل کرنا چاہے تو دوسروں کی نگاہ میں آپ ذلیل ہو جائے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہوجائے اس لئے اللہ نے امر دیا ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے۔
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو دیکھو آخر وقت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے معافی مانگ رہی ہیں یا رسول اللہ میں آپ کا حق ادا نہ کر سکی لیکن اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فرمایا میری بیٹی میں نے آپ کے بابا سے کچھ نہیں مانگا مجھے شرم آتی ہے کہ میں کچھ مانگوں لیکن ایک شفارش کر رہی ہوں اس کو تیرے بابا تک پہنچانا،فرمایا کہ تیرے بابا سے کہو جب وحی ہوتی تھی جب خدا کا فرشتہ نازل ہوتا تھا اور جب قرآن نازل ہوا تو تیرے بابا کے جسم پر جو عبا تھی بابا سے یہ کہنا کہ ماں یہ کہہ رہی ہے کہ میں جب اس دنیا سے گزر جاؤں تو اسی عبا میں مجھے دفنانا میرا کفن آپ کی وہی عبا ہو!  مرتے وقت کفن کےلئے بھی کچھ نہ بچا جب خدیجہ کی یہ حالت دیکھی گئی تو جبرئیل امین اترا کہا یا رسول اللہ! اللہ نے کہا ہے کہ خدیجہ نے "بذلت مالھا فی سبیلنا" کہ خدیجہ نے اپنا مال ہماری راہ میں لٹا دیا ہے تو آج ہدیہ کے طور جنت سے کفن خدیجہ کو ہم بھیج رہے ہیں۔ دو کفن خدیجہ کو پہنایا گیا اور خدیجہ کے جنازے کو بڑے احترام سے دفنایا گیا اور جناب سیدہ یہ دیکھ رہی ہیں ایسا وقت بھی آئے گا کہ جناب سیدہ کا اپناجنازہ اٹھے گا ،دن کی روشنی میں نہیں، بلکہ رات کی تاریکی میں جنازہ اٹھے گا۔

جاری ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .