تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । جس دورہ جاہلیت میں عورت کا وجود باعث ننگ و عار تھا۔ اگر زندہ رہتی تب بھی اسکی زندگی مردوں کے مرہون منت ہوتی۔ جس زمانے میں کسی عورت کے استقلال کا تصور ہی ایک خواب ہو۔ اگر اس دور میں کسی خاتون کی شخصیت ملیکۃ العرب کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ مرد اس کے مال سے تجارت کو شرف سمجھیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے وہ ذات جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں صرف صنف نسواں ہی نہیں بلکہ وقار بشریت کا روشن چراغ تھی۔
اپنی مردانگی کے نشہ میں چور انسان نما وحشیوں نے جنکو وجود عورت گوارہ نہ تھا انہوں نے ان سے وصلت کی خواہش ظاہر کی لیکن عظمتوں کی ملکہ کا کیا کہنا کہ سارے دنیا طلبوں کے پیغام ٹھکرا دئیے اور الہی نظر سے اس کا انتخاب کیا جو اللہ کا مصطفیٰ تھا۔
جناب یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے کہ میری مالکہ اور سیدہ ملیکۃ العرب نے مالداروں، دولت مندوں اور دنیوی نام و نمود والوں کو ٹھکرا دیا اور اسے پیغام بھیجا جسے دنیا اس وقت ایک یتیم سے زیادہ نہیں سمجھتی تھی۔ یہ اور بات کہ جسے دنیا یتیم سمجھ رہی تھی خدیجہ اسے ہر ممکن کے وجود کا سبب اور آبرو سمحھ رہی تھیں۔
دنیا میں کار خیر کرنے والے عموما دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ مال خرچ کر کے سماج میں تمغہ حاصل کرتے ہیں اور کچھ کام کر کے نامور بنتے ہیں لیکن میری مالکہ خدیجہ سلام اللہ علیہا وہ ہیں جنہوں مال بھی دیا بلکہ اتنا مال خرچ کیا جس کا دنیا تصور نہیں کر سکتی اور صرف مال ہی بلکہ ایسی خدمت کی کہ جس کی دولت پر نجانے کتنوں کے فاقے ٹوٹتے تھے اس نے فاقے کئے۔ شعب ابی طالب سے قبل پر آشوب ماحول اور شعب کے ناگفتہ بہ حالات نے اس بی بی کے جسم کو تو کمزور کیا لیکن اسکی ملکوتی روح میں اور قوت آ گئی۔
جان و مال سے زیادہ محبوب ایک غیرت مند انسان کے لئے آبرو ہوتی ہے لیکن وہ بی بی جس کے دروازے کے سامنے سے گذرنے پر بڑے بڑے گھمنڈیوں کے بھی سر جھک جاتے تھے لیکن اب حالات ایسے تھے کہ اوباش و اراذل آئے دن گھر گھیرے دروازے پر ہنگامہ کر رہے ہیں لیکن اللہ رے پہلی مومنہ پہلی مسلمہ پہلی نمازی خاتون کی ہمت و حوصلہ کہ ہر محاذ پر حیدر کرار کی مربیہ نظر آئیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ جس نے اپنی دولت سے مسلمان ہی نہیں بلکہ اسلام کو پالا ہو اس نے راہ خدا میں جب خرچ کیا تو اپنے کفن کی بھی فکر نہ کی۔ بلکہ اس صدف کوثر طاہرہ بی بی نے اپنی بتول بیٹی کے ذریعہ اپنے کفن کے لئے پیراہن رسول کی درخواست کی۔
اس درخواست نے قرآنی آیت "انتم لباس لھن" کی تفسیر کر دی کہ جو عورت شریکہ حیات ہوتی ہے وہ زندگی میں شوہر کے زیر سایہ مستور ہوتی ہے لیکن جو مقصد کی شریک ہوتی ہے وہ دنیا سے بھلے ہی چلی جائے لیکن جب رجعت و محشر میں اٹھے گی تو محبوب کبریاء شوہر کا لباس اس کا لباس ہوگا۔
وہ صرف گیارہ اماموں کی ماں نہیں بلکہ بارہ اماموں کی ماں ہیں۔ گیارہ اماموں کے لئے صدف تھیں تو امام اول کے لئے سایہ تھیں۔
واقعا غم عظیم ہے۔ یہ غم کا دن ہے۔ یہی وہ غم ہے جس نے محبوب خدا کو پوری زندگی رلایا۔ یہ مادر حسین پر پہلی مصیبت ہے۔
آجرک اللہ بقیۃ اللہ فی مصیبۃ جدتک خدیجہ سلام اللہ علیہا