۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
شورای مسلمانان بریتانیا خشونت اخیر نیروهای اسرائیلی در بیت المقدس را محکوم کردند

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے ، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے 25واں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
قال الله:"وَلَاتَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمْ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَاتُنصَرُونَ."
ترجمہ:
ظالموں پر بھروسہ نہ کرو کہ جو اس بات کا باعث ہوگا کہ آگ تمہیں چھُولے اور اس حالت میں خدا کے سوا تمہارا کوئی ولی وسرپرست نہیں ہوگااور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔سورہ ہود آیۃ 113

قرآن مجید انسان کی ہدایت کےلئے نازل ہوا ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اور انسان تباہ نہیں ہوں۔
پروردگارعالم ظلم کی مخالفت کرتا ہے قرآن ظالمانہ نظام کو ختم کرنے نازل ہوا ہے اسی لئے فرمایا: جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان لوگوں سے تمہارا کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہئے اگر تم ان ظالمین کے ساتھ باطنی تمایل اور رغبت بھی پیدا کرو تو تم جہنم سے نہیں بچ سکو گے اگر کوئی کسی ظالم کے ظلم پر راضی ہو یا اس پر خاموشی اختیار کرے،تو وہ ظالمین کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اور اسی طرح اگر کوئی معاشرہ کسی ظالم کے ظلم پر خاموش رہے تو وہ معاشرہ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہے۔
شیعہ سنی متفقہ روایات کے مطابق ، قرآن مجید نے دستور دیا کہ ظالم کی مدد تو اپنی جگہ بلکہ ظالم کی طرف توجہ بھی نہ کرے اگر کوئی معاشرہ ظالم کے ظلم پر راضی ہو جائے تو وہ ظالمین کے ساتھ ہے بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ معصوم(ع)فرماتے ہیں: "الراضی بفعل قوم کداخل فیه" جو کسی قوم کے کسی بھی کام پر راضی ہوجائے تو گویا وہ اس قوم میں داخل ہو گیا ہو۔
 کسی بھی قوم کے عمل کو ہم دو صورتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں یا تو اس قوم کا عمل اچھا عمل ہے اور اس اچھے عمل پر ہم خوش ہوجاتے ہیں تو اس قوم کےلئے پروردگار جو اجر وثواب عطا فرمائے گا وہی اجر وثواب پروردگاعالم ہمیں بھی عطا کرے گا کیونکہ اس قوم کا ایک حصہ ہے اور اس قوم کے عمل میں برابر کے شریک ہیں اور دوسرا پہلو اس قوم کے منفی اور غلط کردار کا ہے، وہ قوم کوئی مثبت عمل انجام نہیں دیتی ہو بلکہ اس قوم کا عمل ظالمانہ ہے اگر اس کے عمل پہ ہم راضی رہیں تو پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث کے مطابق:"من أحب قوما حشر معھم" جو شخص کسی قوم سے محبت کرے تو پروردگار اسے قیامت کے دن اسی قوم کے ساتھ محشور کرے گا۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:"من أحب حجرا حشر معه" جو کسی پتھر سے بھی محبت کرے تو قیامت کے دن اس پتھر کے ساتھ محشور ہوجائے گا لہذا ہمیں جن چیزوں کو اپنی رضایت کےلئے انتخاب کرنا چاہیے احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
معصوم فرماتے ہیں:ومن احب عمل قوم حشر فی عملھم، جو کسی شخص کے عمل سے محبت کرے گا تو وہ اس عمل میں شریک بن جائے گا لہذا اگر خداوند عالم کسی سے محبت یا کسی سے نفرت کرنے حکم دیتا ہے تو وہ ایک عادلانہ رفتار اور ظالمانہ سوچ کی وجہ سے ہے۔

یوم القدس، اسلام اور انسانیت کا دن ہے

ہم یوم القدس کیوں مناتے ہیں؟ دراصل یوم القدس میں ہم ظالم سے نفرت اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ظالم کے ظلم میں شریک نہیں ہیں اگرانسان ظلم کو ہاتھ سے روک سکتا ہے تو اسے روکے اگر یہ ممکن نہیں ہو تو کم ازکم زبان سے روکے اگر یہ بھی ممکن نہیں ہے تو دل سے بیزاری کا اعلان کرے تاکہ ہمیں قیامت کے دن اس ظالم قوم کے ساتھ پروردگارعالم محشور نہ کرے اسی لئے آج عالم اسلام سراپا احتجاج ہے کہ آج فلسطین ہو یا کوئی دوسرا ملک،جہاں کہیں پر ظلم ہو اسلام مذہب نہیں دیکھتا بلکہ اسلام کہتا ہے ظالم ظالم ہے اگر چہ وہ تمہارے قریبی ساتھی ہی کیوں نہ ہو۔
 ہمیں ظالم سے نفرت کرنے کا حکم ہے اگر چہ وہ ہمارے ابا واجداد ہی کیوں نہ ہوں اگر ہم ظالمین کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں ایک تو یہ مظلوم کی حمایت ہے کیونکہ مظلوم کی حمایت ہمارا دینی دستور ہے۔
صحیح بخاری سے لے کر ہماری معتبر کتب حدیثی میں پیغمبر(ص) کی یہ حدیث موجود ہے:"من اصبح ولا یحتم بامور المسلمین فلیس بمسلم؛" مسلمانوں کی حمایت کئے بغیر اگر کوئی صبح کرے، مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی طرف اس کی توجہ نہ ہوتو وہ لاکھ کلمہ پڑھے وہ لاکھ نماز پڑھے وہ لاکھ روزہ رکھے وہ کئی بار حج کرے وہ کئی بار خیرات کرے تب بھی وہ مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کے سینے میں درد نہیں ہے اور اگر اس کے سینے میں کسی انسان کےلئے درد ہو اگر اس کا دل کسی اور انسان کےلئے تڑپے تب وہ انسان کہلانے کا حقدار ہے   اگر کسی مسلمان کے گھر سے جنازے اٹھ رہے ہوں کسی مسلمان کی حیاء اور ناموس محفوظ نہ ہوں اور مسلمان بچے ظلم کے لقمہ اجل بن رہے ہوں تو ایسے امور میں مسلمانوں کی خاموشی جرم ہے۔

آج مسلمان کیوں خاموش ہیں؟

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں وہ اجتماعی غیرت نہیں رہی اور اگر مسلمان ملکوں میں عوام بیدار ہیں تو حکام بالا نمبر ایک بےغیرت ہیں ان کو مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں ہے ہم تو اپنے ملک میں مسلمانوں کا جینا حرام کر رہے ہیں۔
پروردگار عالم ایک نظام عزت دے رہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو معاشرے میں تمہاری عزت ہو اور تم سر اٹھا کے چلو تو پروردگار ایک فارمولہ دے رہا ہے "واطیعوا الله ورسوله" عزت اسی کی ہے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت سے سرکشی اختیار کرے اس کےلئے عزت کا کوئی تصور نہیں ہے۔
دوسرا دستور۔"ولا تنازعوا"
آپس میں جھگڑے نہ کرو اختلاف نہ کرو آج مسلمان اگر بدبختی کے شکار ہیں اور اگر مسلم ممالک آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دب چکے ہیں، ان ملکوں میں سانس لینے کی قدرت نہیں ہے ابھی ہمارا فرزند دنیا میں آیا نہیں ہے لیکن وہ آئی ایم ایف کا مقروض ہے یہ سب نالائق حکمرانوں کی وجہ سے جو قرضہ تو لیتے ہیں لیکن قومی ترقی کے بجائے اپنی جیب بھرتے ہیں۔

مسلمان ملکوں میں اتحاد برقرار کرنے کی ضرورت ہے 

آج ماحول ایسا پیدا ہوا ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کی ترقی و خوشحالی برداشت نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچتے ہیں کوئی دوسرا ملک آگے بڑھے تو دوسرے ملک سے ہضم نہیں ہوتا،کوئی مسلمان شخصیت آگے بڑھے تو دوسری شخصیتوں سے وہ برداشت نہیں ہوتا ہم کس اندھے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
 قرآن کہہ رہا ہے آپس میں نہ جھگڑو نہ سیاسی،نہ اقتصادی، نہ ثقافتی، نہ اجتماعی، نہ حقوقی فساد میں آپس میں لڑنے سے منع کیا گیا ہے قرآن کسی بھی فساد کو تحمل نہیں کرتا "فتفشلوا وتذھب ریحکم؛" اگر تم لڑتے رہو گے تو تم خود کمزور ہوجاو گے،جو قوم یا ملک کمزور ہوجائے وہ دوسروں کے آگے سر اٹھا کے بات نہیں کرسکتا بلکہ وہ سر جھکا کر غلام بن کر کشکول لئے ہوئے دوسروں سے بیگ مانگتا ہوا نظر آئے گا اور اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اسی لئے قرآن نے کہا: فتفشلوا تم کمزور پڑھ جاؤ گے اور قدرت اور علم کے اعتبار سے ضعیف ہو جاؤ گے۔
 
کیوں ستر سالوں سے مسئلہ فلسطین چل رہا ہے؟
 ساٹھ سے زائد مسلم ممالک کے ہونے کے باوجود ایک فلسطین کو ابھی تک کیوں آزاد نہ کرا سکیں ؟
وجہ کیا ہے؟
فتفشلوا؛
آپس کا نزاع ہے ، آپس کے جھگڑوں اور نزاع کی وجہ سے لوگ کمزور پڑھ چکے ہیں حالانکہ فلسطین امام امت امام خمینی(رح) کا ارمان ہے، آپ نے فرمایا ہے کہ فلسطین آزاد ہوجائے گا جس طرح رہبر معظم انقلاب نے فرمایا فلسطین آزاد ہوجائے گا اور بہت جلد فلسطین آزاد ہوجائے گا لیکن فلسطین کی آزادی میں ہمارا بعنوان مسلمان کیا کردار ہے؟
 ہمارے نزاع اور آپس کے اختلافات کی وجہ سے فلسطین کی حمایت سے عاجز ہیں حالانکہ اسرائیل کی حیثیت کیا ہے امام راحل نے فرمایا کہ سارے مسلمان ایک بالٹی پانی اٹھا کر اسرائیل کی طرف گرا دیں تو یہ پانی سیلاب بن کر اسرائیل کو بہا کر لے جائے گا یعنی اسرائیل کا وجود باقی نہیں رہے گا لیکن کہاں امام کی یہ بصیرت آموز باتیں اور کہاں یہ مسلمان حکمران؟
قرآن نے کیا خوبصورت تعبیر بیان کی ہے ، "وتذھب ریحکم؛" اور تمہاری ھوا نکل جائے گی یعنی تم اس قدر ذلیل بن جاؤ گے اب تمہارا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا اسی لئے قرآن کہہ رہا ہے کہ'واعدوا لھم ماستطعتم من قوہ؛" اپنی طاقت اور قدرت کو یکجا کرو سیاست میں آگے بڑھو تو آج ویٹو پاور فقط انگشت شمار ملکوں کا نصیب نہیں ہوجاتا بلکہ تم ان ملکوں کو مجبور کرو کہ وہ حق ویٹو استعمال کرے، فلسطین کی آزادی کےلئے استعمال کرے۔
آج اگر مسلمان ممالک متحد ہوجائیں تو ہم اسلامی سپر پاور اور اسلامی ملکوں کا ویٹو پاور اقوام متحدہ سے تسلیم کرا سکیں گے، آج اگر روس اور آمریکہ کے پاس ویٹو پاور ہے تو کیا ساٹھ اسلامی ممالک ایک امریکہ کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہو سکتے؟ 
آج مسلمان نہ فلسطین کو اور نہ ہی کشمیر کو بچا سکیں۔قرآن کہہ رہا ہے یہ یہودی روئے زمین پر دو مرتبہ فساد پھیلائیں گے اور آج اگر اسرائیل کے فساد دیکھے وہ جو فساد پھیلاتا ہے یہ فقط فلسطین میں نہیں بلکہ پوری دنیا اسرائیلی فساد کی زد میں آئی ہوئی ہے۔
 قرآن آج بھی ہمیں راستہ دیکھا رہا ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوجائے تو فلسطین آزاد ہوگا کشمیر آزاد ہوگا نہ فقط ان جگہوں کو آزاد کراسکیں گے بلکہ مسلمان اقوام عالم میں ایک سپر پاور بن کر اپنی طاقت منوا سکیں گے آج اگر ہم قرآن کو معیار قرار دیں گے اور قرآن کے اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی قوانین پر عمل پیرا ہوجائیں  تو ہم ایک با افتخار قوم بن جائے اور ہم دنیا کو اپنے کنٹرول میں لے سکیں گے۔
قرآن کہہ رہا ہے،"وما کنا مھلک القرا اھلھا ظالمون"ظالمین کی حمایت کرنے والے ظالم ہیں اور ان ظالموں نے ہلاک ہونا ہے قرآن کہہ رہا ہے کتنے ظالم معاشرے تھے کتنے ظالم ممالک تھے کتنے ظالم اقوام تھے کہ ہم نے سب کو ہلاک کردیا سب کو نابود کردیا سب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا کیونکہ وہ لوگ ظالم تھے خود ظلم کرتے تھے اور ظالمین کی حمایت کرتے تھے ظالمین کے ظلم کےلئے مقدمے فراہم کرتے تھے زمینہ سازی کرتے تھے اس وجہ سے ہم نے سب کو مٹا دیا۔
ان شاء اللہ فلسطینی آزاد ہو جائیں گے اور یہ جیت جائیں گے اگر ہار کسی کی مقدر ہے تو وہ اسرائیل اور اسرائیل نواز طاقیتں ہیں کہ یہ طاقتیں زوال پذیر ہیں اور یہ طاقتیں اور انکی حمایت کرنے والے سب ان شاءاللہ صفہ ہستی سے مٹ جائیں گے اور ہم فلسطین کی آزادی کا جشن منائیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .