۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
آغا سید عابد حسین حسینی

حوزہ/ امام جمعہ و جماعت حسن آباد سرینگر کشمیر نے کہا کہ ماہ رمضان المبارک میں داعش کا معصوم طالب علموں پر حملہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقع  ہے۔اس کی جتنی بھی مذمت کی جائےکم ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ و جماعت حسن آباد سرینگر کشمیر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید آغا سید عابد حسین حسینی نے کہا کہ جہاں روز قدس صہیونیوں نے مسجد الاقصی میں نہتے نمازیوں پرگولیوں سے حملہ کیا وہیں دوسرے دن ہی دل دہلانے والی خبر سننے کو ملی کہ کابل کے سید الشہدا گرلز سکول کے باہر یکے بعد دیگرے تین دھماکوں کے بعد کم از کم 58 افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں جن میں اسکول کی بچیوں کی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ 

ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا ہے ماہ رمضان المبارک میں داعش نے مختلف جگہوں پر دوسو سے زیادہ افراد کو قتل کیا ہے اور اب معصوم طالب علموں کا، تعلیمی ادارے کے باہر بے رحمی سے مارا ہے، کہاں ہے آج کا اجتماعی ضمیر؟کیوں لال ہوگئی انسانی حقوق کی مدافع تنظیمیں کہا ہے اقوام مثحدہ اور او ائے سی؟ انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقع  ہے۔اس کی جتنی بھی مذمت کی جائےکم ہے۔ ماہ رمضان المبارک ایسے سانحات کا ہونا ان کو مزید سنگین بناتا ہے۔ ہم انکے مغفرت کے لئے دست بدعا ہیں اور انکے والدین کی صبرجمیل کی تمنا کرتے ہیں۔ یقینا روزقیامت یہ بچیاں اپنے پروردگار کے حضور فریاد کریں گی بِأَىِّ ذَنۢبٍۢ قُتِلَتْ کہ ہمیں کس جرم میں قتل کیاگیا تو ظالم کیا جواب دیں گے۔ جیسا کہ کل افغانستان کے دشت برچی میں ایک مدرسہ بنام مدرسہ سید الشہداء میں دہشت گردانہ حملہ کرکے چھوٹی بچیوں کو قتل کیا گیا اسی  طرح زمانہ جاہلیت کے درد ناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ در گور کردینا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں بارہا اشارہ ہوا ہے۔ اسی زمانے میں شعراء میں ایک شاعر اس سلسلہ میں فخر یہ لہجہ میں مشہور تھا :
سمیتها اذا ولدت تموت
و القبر صهر ضامن ذمیت

مولانا موصوف نے اشعار کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس نو زائید لڑکی کا نام اس کی ولادت کے وقت تموت رکھا ( جس کے معنی مر جائے گی ) اور قبر میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کردیا ۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے اس جرم کے مختلف اسباب و عوامل تھے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کا ایک انسان کے لحاظ سے بے قدر و قیمت ہونا اس شدید فقر و فاقہ کی کیفیت کا نتیجہ تھا جو اس معاشرہ میں مسلط تھا ۔ لڑکیاں نہ تو کچھ کما کر دے دسکتی تھی نہ ڈاکہ ڈالنے میں شرکت کر سکتی تھیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک سبب اور بھی اور وہ یہ کہ اس بات کا امکان تھاکہ مختلف جنگوں میں گرفتار ہوکر لڑکیاں قید ہو جائیں اور ان کی عزت و ناموس دوسروں کے قبضہ میں چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بے غیرتی کا دھبہ متعلقین کے دامن پر لگ جائے گا۔ 

یہ چند عوامل لڑکیوں کے زندہ در گور کرنے کا سبب بنے ، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمانہ موجود میں بھی یہ رسم کسی نہ کسی تکفیری افکار میں موجو دہے ۔ تبھی انہوں نے کئی طور طریقوں سے لڑکیوں اور عورتوں کو اپنی درند خوی کا نشانہ بنایا ہے جبکہ اسلام کی رو سے عام انسانوں خصوصاً بے گناہ انسانوں کے خون کی بہت شدید گرفت کی گئی ہے ۔ اور عورت کو اپنی قدر و منزلت عطا کی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قرآن میں نہیں کہا کہ قاتلوں سے سوال کریں گے بلکہ کہتا ہے کہ ان معصوم بچیوں سے سوال ہوگا کہ تمہارا کیا گناہ تھا کہ اس بے رحمانہ طریقہ پر تم کو قتل کیا گیا ۔ گویا قاتل اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے ان کے جرم کے بارے میں پر سش بھی کی جائے بلکہ تنہا ان مقتولین کی گواہی کافی ہے ۔ یقینا کل کے حادثے میں شہید ہوئی بچیوں سے بھی یہ پوچھا جائے گا کہ تمہیں کیوں قتل کیا گیا اور استعماری و استکباری کو الہ کاروں کو جھنم کا مزا چکھائے گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .