۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
کرگل میں حضرت علی (ع) کا یوم شہادت عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا

حوزہ/ شہادت مولائے متقیان،امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دلسوز مناسبت پر جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل کے زیر اہتمام جلوس عزا برآمد،دوران جلوس کورونا کے بڑھتے معاملات کے پیش نظر سماجی دوری کا خاص خیال رکھا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کرگل/روز شہادت مولائے کائنات،امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دلسوز مناسبت پر بعد از نماز ظہرین جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل، لداخ کے زیر اہتمام ماتمی جلوس برآمد ہوا۔ کورونا کے بڑھتے معاملات کے پیش نظر ماتمی جلوس ضلع صدر مقام کے گردونواح کے مختلف علاقوں اور محلہ جات کے جلوسوں کو ہی اجازت دی گئی،یہ ماتمی جلوس اپنے مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے اثناء عشریہ چوک پر ہوتا ہوا،جہاں احاطہ حوزہ علمیہ اثنا عشریہ کرگل سے برآمد کی گئی ایک بڑے ماتمی جلوس پہلے ہی ان ماتمی جلوسوں کا منتظر تھا،جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل کے زیر قیادت یہ ماتمی جلوس مرکزی بازار سے ہوتے ہوئے احاطہ انقلاب منزل ہوتا ہوا جسمیں عزاداران مولا علی علیہ السلام سینہ زنی، نوحہ خوانی اور زنجیر زنی کرتے ہوئے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے محضر مبارک میں آپ کے جدہ امجد کی شہادت پر تسلیت پیش کر رہے تھے، دوران جلوس عزا شبیع تابوت مولا علی علیہ السلام بھی برآمد ہوا۔ 

تصویری جھلکیاں: کرگل میں حضرت علی (ع) کا یوم شہادت عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا

جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل کے صدر حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ناظر مہدی محمدی نے عزاداروں سے اپنے خطاب میں فرمایا کہ مولائے کائنات وہ مظلوم امام ہیں کہ جو پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ والہ و سلم کے زمانے میں اور بعد از رحلت پیغمبر گرامی اسلام میں بھی مولانا علی علیہ السلام نے مظلومانہ زندگی بسر کیا اور آج بھی مولا علی علیہ السلام مظلوم ہیں، بعد از رحلت پیغمبر اسلام مولا علی علیہ السلام کا حق، مولا کی شخصیت, مولا کے عظمت، مولا کے شرافت اور مولا علی علیہ السلام کے کرامت اس زمانے کے امت کو مولائے متقیان کے حیات میں بھی ان کو سمجھنے اور پہچاننے سے قاصر رہے اور یہ جانتے ہوئے کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام رسول مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ و سلم کے جانشین برحق ہیں اور بار ہاں پیغمبر اسلام سے بھی سنے کے باوجود امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنے ہی گھر میں گوشہ نشینی پر مجبور کیا اور مولا علی علیہ السلام نے کیسے  اپنے ہی گھر میں گوشہ نشینی کی زندگی گزاری مولا علی کے ہی چند الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب انسان کے آنکھوں میں ہلکی سی چیز چلی جاتی ہے اور انسان حلقوم میں جب کوئی ہڈی پھنس جاتی ہے تو اس انسان کو کتنے اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے پس میں نے بھی اپنے گوشہ نشینی کے دنوں میں ایسے ہی اذیتوں کا سامنا کرتے ہوئے مولا کائنات نے پچیس سالوں تک گوشہ نشینی کی زندگی گزاری, علی علیہ السلام کے حقوق ضائع ہوئے، زہرا سلام اللہ علیہا کی حق ضائع ہوئے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ناظر مہدی محمدی نے مزید کہا کہ مولا علی علیہ السلام کو نہیں پہچانا، علی علیہ السلام کی معرفت نہیں ہوئی, علی کو رسوا کیا گیا،زہرا سلام اللہ علیہا نے مولا علی علیہ السلام سے کہا کہ یا علی میں نے سنا ہے کہ یہ امت آپ کو سلام کرنا بھی مناسب نہیں سمجھ رہا ہے!  تو مولا نے فرمایا یا زہرا یہ لوگ مجھے سلام کرے یہ دور کی بات لیکن جب میں ان کو سلام کرتا ہوں تو یہ میرے سلام کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے اس حد تک ہمارے مولا مظلوم ہو چکے تھے, کوئی نہیں تھا کہ جو مولا علی علیہ السلام کے دفاع میں کھڑے ہوتے، مولا علی علیہ السلام کو چالیس لوگ نہیں ملا کہ جن کے مدد سے مولا اپنے حق کو حاصل کر سکتے اس مظلوم امام کا معرفت اور شناخت اللہ اور رسول اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوا اور کسی نے بھی علی کو پہچاننے اور پہچانوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ علی علیہ السلام کا حق و حقوق، علی علیہ السلام کے شخصیوں کو, علی علیہ السلام کے شناخت کو اور علی علیہ السلام کے صفات کو غیروں کے ساتھ اثبات کرنے میں لگے رہے علی علیہ السلام کے صفات کو غیروں کے ساتھ منسوب کر میں مصروف عمل رہے اور کوئی بھی علی علیہ السلام کو پہچان نہیں پائے اسی لئے پیغمبر گرامی اسلام نے فرمایا کہ یا علی خدا کو نہیں پہچانا سوائے آپ نے اور میں نے اور مجھے نہیں پہچانا سوائے خدا نے اور آپ کا معرفت اور شناخت نہیں ہوا سوائے خدا اور مجھے علی علیہ السلام کے حق معرفت,اور علی علیہ السلام کے حق شناخت کو کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام فرماتے ہیں کہ اس حد تک ہمیں علی علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا معرفت حاصل ہوتا ہے کہ جس میں بل جملہ معرفت حاصل نہیں ہوتا بلکہ صرف فل جملہ معرفت حاصل ہوتا ہے کہ جو قرآن اور ائمہ طاہرین علیہم السلام فرماتے ہیں کہ علی علیہ السلام اور اہل البیت علیہم السلام کے بارے میں کہ زہرا سلام اللہ کون ہیں، علی علیہ السلام کون ہیں جیسے کہ آپ اور ہم نے شبہائے قدر کے اعمال میں شرکت کی, شب قدر کیا ہے, شب قدر کس کو کہتے ہیں اور حقیقی اور واقعی شب قدر کون ہیں, حقیقی شب قدر وہ رات نہیں بلکہ حقیقی شب اس شب کے مالک و میزبان امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں, ہمارے زمانے کے امام شب قدر ہیں ہماری زندگی بسر کرنے اور اس دنیا میں وجود صرف اور صرف امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے محضر مبارک کے بدولت ہے اور جب تک امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف غیبت میں ہیں تب تک یہ دنیا قائم و دائم رہے گا ہمیں امام زمانہ عج ہی صحیح معنوں میں شب قدر ہے کہ جن کو ہمیں صحیح معنوں میں پہچاننے کی ضرورت ہے،امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے قدر کے بغیر ہم زندگی گزار رہے ہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں جو بھی نعمتیں عطا کر رہے ہیں وہ کس کے واسطے ہے صرف اور صرف امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے واسطے اور امام عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وجود مبارک تمام عالم خدا کیلئے ایک رحمت و نعمت ہے۔

شیخ ناظر مہدی محمدی نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ یہ ساری نعمتیں پہلے اپنے ولی مہدی زمان عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے محضر مبارک کو حوالہ کرتے ہیں اور ان سے ہمیں یہ نعمتیں حاصل ہو رہے ہیں، ہم کون سے انسان ہیں, کون سے شخصیات ہیں, کون سا زات ہیں  اور کون سا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت و احترام والے ہیں اور کون سا مقام ہمیں عطا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کہ ہم سر سے لے کر پاؤں تک گناہ میں غرق ہیں ہم کون سے چہرے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعویٰ کرے گے کہ خدا یا مجھے یہ نعمت عطا فرمائے وہ نعمت عطا کریں کیا ہمارے پاس وہ پاک و پاکیزہ چہرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے نعمتوں کو مانگنے جائے, اللہ تعالیٰ سے ان نعمتوں کو مانگنے کے لئے عزت چاہئے,  شرافت چاہئے, وہ چہرہ چاہئے کیا ہے وہ چہرہ ہمارے پاس کہ اللہ تعالیٰ سے ان نعمتوں میں مانگے،ہمارے وجود اور حقیقت گناہ میں غرق ہیں لہذا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہی ایک وسیلہ ہے کہ جن کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ تک اپنے مشکلات اور پریشانیوں کو پہنچا سکتے ہیں, جب تک نہ ہمیں ائمہ طاہرین علیہم السلام کا معرفت حاصل نہ ہو ہمارے سارے عبادات کا الله تعالیٰ کے نزدیک کوئی ارزش نہیں ہے،آج کے اس دور میں ہمارے لئے کیا ضرورت و ضروری ہے ہمارے لئے سب اہم اور ضروری آج کے اس دور میں امام کی معرفت حاصل ہونا ہے، اگر امام عج کی معرفت حاصل نہیں ہوا اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور غیر معصومین کو ایک ہی نظر اور مقام پر لے جانے کی کوشش کرے اور کہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے صفات اور کمالات غیر معصومین میں بھی ہیں اور کہے کہ ولی خدا سب ہے،حجت خدا سب ہے تو پھر مسئلہ کہاں پہنچ جائے گا, کیا یہی ہمارا معرفت ہے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نزدیک کیا یہی ہمارا معرفت ہے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نزدیک کیا یہی ہمارا معرفت ہے زہرا سلام اللہ علیہا کے نزدیک، امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر ایک ظلم یہ ہوا کہ اس دور کے حکومتوں نے اس زمانے کے حاکموں نے علی علیہ السلام کے فضیلتوں کو کم کرنے کی کوششیں کی،مولا علی علیہ السلام کے کرامت اور فضائل اپنے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا, علی علیہ السلام کو امیرالمومنین کا لقب حاصل تھا اور یہ نام صرف اور صرف علی علیہ السلام کے زات سے مخصوص تھا کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کے بغیر کسی اور شخص کو امیرالمومنین کے لقب سے پکارے لیکن ہوا کیا یہ صفت، لقب اور نام ان حاکموں نے اپنے لئے استعمال کیا اور امیر معاویہ لقب رکھ دیا گیا, امیرالمومنین کے صفات بہت سارے تھے کہ جن کو آہستہ آہستہ عوام کے درمیان میں اپنے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا تاکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حیثیت، شخصیت, شرافت اور کمالات کو کم کرنے کے لئے،اگر آپ لوگوں نجف اشرف میں زیارت کا شرف حاصل ہو جائے اور وہاں پہنچے اور کوفہ میں مسجد کوفہ کے ایک دروازہ علی علیہ السلام کے نام سے منسوب تھا کہ جس نام میں علی علیہ السلام کے فضیلت عیاں تھی جس کو معاویہ نے بدل کر باب الفیل رکھ دیا تو لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا وجہ ہے کہ اس دروازے سے منسوب پرانے نام کو بدل دیا گیا تو معاویہ لعنت اللہ نے کہا کہ اس نام میں علی کے فضیلت بھرے پڑے تھے اس نام میں علی کے فضیلت مخفی تھے یہی وجہ ہے کہ میں نے اس دروازے کا نام بدل دیا اور انہی سازشوں کے تحت معاویہ نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل کم کرنے شروع کر دیئے اور علی اور دوسروں کو ایک ہی مقام پر لا کر کھڑا کردیا گیا۔

شیخ ناظر مہدی محمدی نے مزید کہا کہ مولا علی علیہ السلام اس زمانے میں بھی مظلوم تھا اور آج کے اس دور میں بھی علی مظلوم ہیں, پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ والہ و سلم نے علی علیہ السلام کیلئے  فرمایا کہ علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے, علی اور حق جدا ہو یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ علی خود حق ہے اور حق علی کے ساتھ ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ علی حق سے جدا ہو حق علی سے جدا ہو کیا ہم اس صفت کو ایک عام انسان کیلئے استعمال کر سکتے ہیں یہ بھی امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ ایک ظلم ہے,  علی قرآن ناطق ہے جو قرآن ہم اور پڑھتے ہیں وہ قرآن صامت ہے اور دونوں قرآن ہے, حق اور علی کبھی جدا نہیں ہوگا اس صفت سے ہم علی علیہ السلام کے عظمت کو ثابت کرتے ہیں, علی علیہ السلام معصومین ہے ہمیں انہی احادیث سے ثابت ہوگا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ناظر مہدی محمدی نے عزاداروں کو دوران جلوس عزا Covid-19 protocols پر ضلع انتظامیہ اور محکمہ صحت کے طرف جاری کردہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرتے ہوئے جوانان اثنا عشریہ کے والنٹیئرز کو مکمل تعاون فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا اور زیارت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ذکر مصائب اور دعائے خیر کے ساتھ اس جلوس عزا کو اپنے اختتام تک پہنچایا, شیخ ناظر مہدی محمدی نے ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں کورونا کے بڑھتے معاملات کے روک تھام کیلئے خصوصی دعائیں کی اور تمام مراجع عظام,  حوزات علمیہ اور عالم اسلام بالخصوص ملک میں امن و امان کیلئے خصوصی دعائیں بھی کی۔

حجتہ الاسلام والمسلمین شیخ اصغر ذاکری نے جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل کے طرف سے ضلع انتظامیہ کے ان تمام محکمہ جات کا شکریہ کیا جن محکموں نے شہادت مولائ متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ کے جلوس عزا کے دوران اپنے خدمات سے نوازا جن میں بالخصوص محکمہ صحت, محکمہ انفارمیشن، محکمہ پانی و بجلی،پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا خبر رساں ایجنسیاں اور دیگر تمام متعلقہ اداروں اور محکموں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس دن کو منانے میں اپنا تعاون پیش کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .