تحریر: مولانا ظہور مہدی، مہاجنگا، مڈگاسکر
حوزہ نیوز ایجنسی | اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوند متعال کی بے لاگ عبودیت و بندگی ہی انسانیت کا اصل جوہر ہے ، جو جتنا اس معبود برحق کے حضور خاضع و خاشع اور مطیع و متواضع ہوگا ، اتنی ہی اسے اللہ عز و جل کی قربت اور رضا و خوشنودی حاصل ہوگی اور یہی ایک بندہ کے لئے نہایت عظیم کامیابی و کامرانی ہے جیسا کہ قرآن عظیم نے اعلان فرمایا ہے :
و رضوان من اللہ اکبر ، ذلک ھو الفور العظیم۔(1)
اس آیہ کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ خداوند اعظم و اکبر کے بعد جو چیز سب سے بڑی اور عظیم ہے وہ اس کی رضا و خوشنودی ہے۔
بس جو بندہ اپنی عبودیت و بندگی کے ذریعہ جتنا زیادہ اللہ عز وجل کی رضا و خوشنودی حاصل کرے گا وہ اتنا ہی باعظمت و بلند مرتبہ اور کامیاب ہوگا۔
جب ہم اس تناظر میں سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت مولا علی علیہ الصلوة و السلام کو دیکھتے ہیں تو ھمیں آپ دونوں حضرات کی زندگی خداوند متعال کی عبودیت و بندگی سے لبریز نظر آتی ہے۔
بالخصوص سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عبودیت و بندگی کا تو یہ عالم تھا کہ خود معبود برحق نے انھیں قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر اپنا "عبد " کہ کر یاد فرمایا ہے کہ جس کے فقط چند نمونے ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں :
1۔ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ۔۔۔(2)۔
2۔ تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ ، لیکون للعالمین نذیرا۔(3)
3۔ فاوحی الی عبدہ ما اوحی (4)۔
آنحضرت کے بعد جو ذات سب سے زیادہ خداوند قدوس کی عبودیت و بندگی میں نمایاں نظر آتی ہے ، وہ حضرت مولا علی علیہ السلام کی ذات گرامی ہے.
بلاشبہ حضرت مولا علی علیہ السلام ، خداوند متعال کے ایسے عارف و عاشق " عبد " تھے ، جو اس کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی جان کو جان نہیں سمجھتے تھے ، جس پر قرآن حکیم کی یہ آیہ کریمہ با قاعدہ شاہد و گواہ ہے :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ ، واللہ رؤف بالعباد۔ (5)۔
اسی آیہ کریمہ کی بنیاد پر آپ کو " نفس اللہ " اور " مرتضی" کہا جاتا ہے۔
یہ دونوں لقب آپ کی عظیم عبودیت و بندگی کی بہترین عکاسی کرتے ہیں ، اگرچہ ان کے علاوہ وجہ اللہ ، عین اللہ اور یداللہ جیسے دیگر باعظمت القاب بھی آپ کی عبودیت و بندگی ہی پر دلالت کرتے ہیں۔
لیکن مقام افسوس ہے کہ بعض نادان اور کم علم ذاکروں اور خطیبوں نے ان کے من گڑھت معانی تراش کر ان کی قداست و معنویت کو مخدوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، ھدانا اللہ و ایاھم الصراط المستقیم۔
اس لئے ان باعظمت اور عبودیت لبریز القاب کی مختصر البتہ حقیقی وجہ و شرح پیش کرنا ھم ضروری سمجھ رہے ہیں ، امید ہے کہ ہماری یہ ادنی سی سعی و کوشش قارئین کرام کے لئے مفید واقع ہوگی :
1۔ نفس اللہ :
مولا علی علیہ السلام کو نفس اللہ یعنی اللہ عز وجل کا نفس اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کو اللہ رب العزت کی طاعت و عبادت کے لئے مکمل طور پر وقف کر دیا تھا اور اسے خداوند قدوس کا اس قدر مطیع و فرمانبردار بنا دیا تھا کہ اس کا سارا ھم و غم اور شغل و عمل فقط اور فقط طاعت و عبادت الہی تھا اور اس کے اندر " للہیت" کے علاوہ کوئی للک اور ہوس نہیں پائی جاتی تھی ، اسی لئے معبود برحق نے شب ہجرت اسے خریدا اور اس کا اعلان آیہ " اشتراء" (6) میں واضح طور پر فرمایا ہے۔
2۔ وجہ اللہ :
یہ بھی سرکار امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک لقب ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟
اسے ہم سرکار امام علی رضا علیہ السلام کی حديث کے ذریعہ بیان کر رہے ہیں :
آپ نے ابو صلت کے سوال کرنے پر فرمایا کہ وجہ اللہ سے مراد انبیاء ، مرسلین اور اس کی حجتیں ( ائمہ ) ہیں ، چونکہ ان کی وجہ سے لوگ اللہ عزوجل ، دین اور اس کی معرفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔(7)
بلاشبہ اس حدیث مبارک سے وجہ اللہ کا مطلب بخوبی سمجھ میں آتا ہے۔
پس مولا علی علیہ السلام کو " وجہ اللہ " اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کا وجود لوگوں کو خداوند متعال ، دین اور اس کی معرفت کی طرف متوجہ کرنے کا عظیم وسیلہ ہے۔
یعنی آپ کا وجود اللہ رب العزت کی عبودیت و بندگی اور ایمان و تدین کا ایسا مرقع تھا کہ جسے دیکھ کر لوگ اللہ تعالی اور دین کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے ، یہ تھا آپ کی ذات مبارک کا کمال ، لیکن الحمد للہ آپ کی شہادت کے بعد یہی کمال آپ کے تعلیمات ، سیرت اور روضہ مبارک میں بھی آج تک موجود ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دعائے ندبہ میں سرکار امام عصر علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے بھی" وجہ اللہ " کی تعبیر استعمال کی گئی ہے اور کلمہ " وجہ اللہ " کے یہی معانی ذکر کئے گئے ہیں ، چنانچہ اس مقدس دعا کا فقرہ یہ ہے :
اين وجہ اللہ الذي يتوجه الیہ الاولیاء (8)
یعنی کہاں ہے وہ وجہ اللہ کہ جس کے ذریعہ اللہ کے دوست اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
ھمارے علما ، محدثین ، مفسرین اور اہل لغت نے لکھا ہے کہ در حقیقت وجہ اللہ سے مراد اللہ رب العزت کی طرف لے جانے والا راستہ ، وسیلہ اور جہت ہے۔(9)
3۔ عین اللہ :
یہ بھی مولا علی علیہ السلام کا مشہور لقب ہے۔
آنلائن لغت آبادیس گوگل میں اس کے دو معانی لکھے ہیں : چشم خدا اور انسان کامل۔
پھر وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
سالک ( اللہ کے قرب کا طلبگار بندہ ، معرفت ، محبت اور طاعت و عبادت کے ) راستے کو طے کرنے کے بعد جب قرب الہی کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کی روح ، دیدار الہی سے پر ہوجاتی ہے۔
یعنی اللہ تعالی کا عارف و عاشق بندہ مقام قرب میں پہنچ کر جب سر والی آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی آنکھ سے اللہ تعالی کے جمال کو دیکھنے میں محو اور مست ہوجاتا ہے تو وہ اپنے قلب و روح کی آنکھ کو فقط اور فقط جمال الہی کے دیدار کے لئے وقف کر دیتا ہے ، اس لئے اسے " عین اللہ " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
پس ھمارے مولا علی علیہ السلام کو "عین اللہ " کے با عظمت لقب سے یاد کرنے کی یہی وجہ ہے ، جس سے آپ کی عبودیت و بندگی اور الہی محبت و قربت کی باقاعدہ نشاندہی ہوتی ہے۔
4۔ یداللہ :
یہ لقب بھی مولائے کائنات علیہ السلام کا معروف لقب ہے اور اس کا مطلب : اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ، لیکن اللہ تعالی چونکہ جسم و جسمانیت سے منزہ ہے ، اس لئے اللہ تعالی کے ہاتھ سے مراد ھمارے جیسے ہاتھ نہیں ہیں بلکہ اس کے ہاتھ سے مراد اس کی حول و قدرت ہے۔(10)
رہی یہ بات کہ مولا علی علیہ السلام کو یداللہ کیوں کہا جاتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نے چونکہ ھمیشہ اپنی تمامتر قدرت و طاقت کو فقط اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی اور اس کے دین کی بالادستی کے لئے استعمال کیا تھا ، اس لئے آپ کو یداللہ کہا جاتا ہے۔
امید ہے کہ اس مقام پر اس واقعہ کا نقل کرنا لطف سے خالی نہیں ہو گا کہ محقق عظیم المرتبت علامہ امینی علیہ الرحمہ اہل سنت کی ایک علمی مجلس میں تشریف فرما تھے ، وہاں ایک سنی عالم نے آپ سے کہا :
آپ شیعہ لوگ ، علی کے سلسلہ میں غلو اور افراط سے کام لیتے ہیں ، انھیں عین اللہ اور یداللہ کہتے ہیں ، صحابہ کی اس قدر تعریف و توصیف ، غلط بات ہے!!۔
علامہ امینی علیہ الرحمہ نے بلا تاخیر فرمایا کہ :
اگر عمر ابن خطاب نے مولا علی علیہ السلام کو ان القاب سے یاد کیا ہو تو ؟
اس سنی عالم نے کہا : عمر ابن خطاب ھمارے لئے حجت ہیں۔
یہ سن کر علامہ نے اہل سنت کی ایک معروف کتاب طلب کی اور اس میں موجود یہ روایت پڑھ کر سنائی :
ایک دن ایک شخص طواف کعبہ میں مشغول تھا ، اسی حالت میں اس نے نامحرم اور اجنبی عورت کو دیکھا اور اس کی طرف ناجائز نگاہ کی ، علی نے اس کی یہ حرکت دیکھی تو اس کے منھ پر ایک طمانچہ مارا اور اسے اس گناہ کی اس طرح سزا دی ، وہ شخص منھ پر ہاتھ رکھے ہوئے عمر ابن خطاب کے پاس علی کی شکایت لے کر پہنچا تو انھوں نے کہا : فقد رآک عین اللہ و ضربک یداللہ (11)
بھئی! میں کیا کروں ! عین اللہ نے تیرا گناہ دیکھا ہے اور یداللہ نے تیرے تھپڑ مارا ہے۔
یعنی اس آنکھ نے تیرا گناہ دیکھا ہے جو اللہ تعالی کی رضا کے مطابق دیکھتی ہے اور اس ہاتھ نے تجھ پر تنبیہ کی ہے جو خداوند متعال کی مرضی کے تحت عمل کرتا ہے۔
جب اس سنی عالم نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ لکھا دیکھا تو اسے اپنی بات پر شرمندہ ہونا پڑا اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی اس عظمت کا اعتراف بھی کرنا پڑا۔
اہم بات :
یاد رکھنا چاہیئے کہ نفس اللہ ، عین اللہ اور یداللہ وغیرہ جیسی تمام اضافتیں بھی روح اللہ ، سیف اللہ ، بیت اللہ ، خليفة اللہ اور ناقة اللہ کی طرح ہیں ، جو حقیقیہ نہیں بلکہ" اضافت تشریفیہ " کہلاتی ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو اللہ عز و جل کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے تا کہ اس کی حقیقی و واقعی ذات شریف سے کسب شرف کیا جا سکے۔
حوالے :
1 ۔ قرآن حکیم ، سورہ توبہ ، آیہ 72۔
2 ۔ قرآن حکیم ، سورہ اسراء ، آیہ 1۔
3 ۔ قرآن حکیم ، سورہ فرقان ، آیہ 1۔
4 ۔ قرآن حکیم ، سورہ نجم ، آیہ 10۔
5 ۔ قرآن حکیم ، سورہ بقرہ ، آیہ 207۔
6 ۔ حوالہ سابق۔
7 ۔ مجلسی ، بحارالانوار ، ج 4 ، ص 3
8 ۔ قمی عباس ، مفاتیح الجنان ، دعائے ندبہ۔
9 ۔ فراھیدی خلیل ، کتاب العین ، ج 4 ، ص 66۔
10 ۔ مصطفوی حسن ، التحقیق فی کلمات القرآن ، ج 14 ، ص 234۔
11 ۔طبری ، محب الدین ، ریاض النضرہ، ج 3 ، ص 164۔