تحریر:سید عون کاظمی (جامعۃالمصطفیٰ کراچی)
حوزہ نیوز ایجنسی|
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي
حدیث نبوی ہے کہ:
إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا
رسول اسلام کی یہ معروف حدیث اہل عالم کے لئے سیدہ کائنات کی عظمت کو واضح کرنے کے لئے روشن دلائل میں سے ایک ہے۔
یہ حدیث اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے کہ سیدہ،رسول اعظم کے لئے صرف ایک بیٹی نہیں بلکہ رسول خدا کے وجود ذی جود کے حصوں میں سے ایک حصے کی مانند ہے۔
ولادتِ سیدۃ النساء العالمین در حقیقت ایسے نور مجسم کی آمد تھی جو نبوت کے در سے ہوتا ہوا مستقبل میں سلسلۂ ولایت کے آغاز کے لیے سبب قرار یایا اور بطن اطہر جناب خدیجہ سے نور سیدہ کوُآسمان خواتین کے ذریعے برآمد کروا کر خداوند متعال نے اس حقیقت کو زمانے کے لئے آشکار کر دیا کہ جانب سیدہ کا تعلق زمین کے عام سے دائرے سے ہر گز نہیں، بلکہ آسمانی طاہر مخلوقات سے جڑا ہوا ہے۔
رسول خاتمُ نے سیدہ عالم کو محض اپنی بیٹی نہیں بلکہ آپکی ذات پر صفات کو اپنے وجود مبارک کاُحصہ قرار دیا اور ہمیں یہ فرماتے نظر آئے کہ “جس نے فاطمہ کو رنج و اذیت دی تو اس نے مجھ محمد کو رنج و اذیت پہنچائی”
یہاں پر یہ بات بھی بطور خاص اہمیت کی حامل ہے کہ رسول مکرم کے اس فرمان کو عالم اسلام میں موجود مکاتب مثلا اہل سنت وُ اہل تشیع کے معتبر ترین علمی مصادر میں ذکر کیا گیا ہے۔
مثال کے لیے چند معتبر حوالے درج ذیل ہیں۔
صاحب نہایہ نے اس حدیث کی تشریح میں کہا لفظ بضعة کی ب پر زبر اور زیر دونوں لگا سکتے ہیں لیکن زیر کے ساتھ پڑھنا زیادہ مشہور ہے اور بضعة کا مطلب ہے گوشت کا ٹکڑا اس لئے حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ فاطمه میرا جز اور گوشت کا ٹکڑا ہے کیونکہ فاطمہ کی تکوین نبی کے بدن کے جز سے ہوئی اور اس حدیث میں فاطمه کی وہ فضیلت ثابت ہے جس میں کوئی انکا شریک نہیں
بلاغی اعتبار سے یہ جملہ انتہائی اعلی معیار اور دقیق مطالب کا حامل ہے کہ جب جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تی ہے تو پورا بدن اس کیفیت کرب کا احساس کرتا ہے۔( نسيم الرياض في شرح شفاء القاضي عياض جلد 4 صفحه 564)
اسی حدیث مبارکہ سے بیھقی نے یہ مطلب لیا ہے کہ رسول اسلام کے فرمان کا مطلب ہے “ جس نے فاطمہ کو گالی دی اس نے کفر کیا”( القاري في شرح صحيح البخاري للبدر الدين العيني جلد 5 ص 665)
اس حدیث کو دیگر مورد اعتبار کتب مثلا صحیین مسلم و بخاری اور سنن ابی داؤد اور مسند احمد ابن حنبل وغیرہ میں بھی عبارت کی معمولی کمی بیشی کے ساتھ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مکتب تشیع کے قدیم ترین منابع میں بھی یہ فرمان رسول مذکور ہے صاحب بحار نے اسےان الفاظ میں نقل کیا ہے عامر شعبی نے حسن بصری حسن بصری نے سفیان ثوری سفیان ثوری نے مجاہد ابن جبیر مجاہد ابن جبیر نے امام صادق (ع) سے امام صادق (ع) نے امام باقر (ع) سے امام باقر (ع) نے امام زین العابدین (ع) سے امام زین العابدین (ع) نے امام حسین (ع) سے امام حسین (ع) نے امام علی (ع) اور امام علی (ع) نے رسول (ص) خدا سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا:
إنما فاطمة بضعة مني فمن أغضبها فقد أغضبني
“بتحقیق فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ( میرا حصہ ) ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا”
(بحار الانوار ، ج 43، ص 39 ، علامہ محمد باقر مجلسی)
اس کے علاوہ شیعہ بزرگان میں سے اسے شیخ حر آملی نے وسائل الشیعہ اور دیگر نے بھی نقل کیا ہے۔
ان تمام مصادر عملی کے حوالہ جات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ دختر رسول کی ذات گرامی تمام امت کے لئے مورد قبول اور مرکزو محور اتحاد ہے۔
سیدہ کائنات کی زندگی استقامت شجاعت ایثار عفت و عبادت جیسی اعلیٰ اخلاقی صفات کا مظہر ہے آپ کی مناجات و خیرا ت اور خصوصا حق کی سر بلندی اور باطل کی نابودی کے لئے قیام کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ فقط رسول گرامی کی بیٹی نہ تھیں بلکہ مدافعۂ دین الٰہی تھیں۔
دور حاضر میں اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی و معاشی پستی کی ایک وجہ یہی ہے آج کے دور میں ہم نے بزرگان دین کے طرز زندگی سے انحراف شروع کر دیا ہے پیام فاطمی یہی ہے کہ عزت و ذلت کا معیار تقویٰ ہے اور زمانے کے ظالم کے خلاف خاموش رہنا خود ظلم کے مترادف ہے۔
سیدہ کائنات کی آمد کا دن ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ معاشروں گھرانوں اور قوموں کی اصلاح کی واحد صورت یہی ہے کہ جگر گوشۂ رسول کی زندگی کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنایا جائے۔
“فاطمہ میرے وجود کاحصہ ہے“
یہ فقط ایک حدیث نہیں بلکہ امت مسملمہ کے لئے آئینہ ہے جس نے عظمت سیدہ کو سمجھ لیا اس نے حقیقت میں راہ نبوی کو دل سے اپنا لیا۔









آپ کا تبصرہ