منگل 2 دسمبر 2025 - 06:12
جناب سیدہ فاطمہ زہراء (س)؛ امام زمانہ (عج) کے لیے اسوۂ حسنہ (قسط 2)

حوزہ/ اسلام نے خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیا ہے اور اس اکائی میں زوجہ (بیوی) کا کردار صرف ایک ساتھی کا نہیں، بلکہ زوجہ ایک معمار، محافظ اور سکون کا مرکز ہے۔

تحریر: طلال علی مہدوی

حوزہ نیوز ایجنسی|

اسلام نے خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیا ہے اور اس اکائی میں زوجہ (بیوی) کا کردار صرف ایک ساتھی کا نہیں، بلکہ زوجہ ایک معمار، محافظ اور سکون کا مرکز ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔" (سورۃ الروم، 30:21)

لیکن انسان کی فطرت ہے کہ یہ انسان اپنی زندگی کے ہر مرحلے ہر پہلو کیلئے ایک نمونہ ایک اسوہ کا محتاج ہوتا ہے اور بھلا اہلبیت علیہ السّلام سے بہتر نمونہ کون ہو سکتا ہے کہ جن کہ بارے میں خدا یہ حکم فرما رہا ہے:"اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے صاحبانِ امر (اُولی الامر) کی اطاعت کرو۔" (سورۃ النساء 4:59)

لہٰذا زوجیت کیلئے سب سے بہترین نمونہ اگر روئے زمین پہ کوئی ہے تو وہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زات اقدس ہے۔

آپ علیہ السلام اپنی 9 سالہ رشتہ ازدواج مین اسطرح امام علی علیہ السلام کی خوشحالی کا باعث رہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "خدا کی قسم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کبھی مجھے غصہ نہیں دلایا، میں جب بھی انکے چہرے کی طرف دیکھتا، میرا ہر غم دور ہو جاتا"۔ (بحار الانوار، ج 43، ص 191)

زوجیت کے حوالے سے پیغمبر خدا کی حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ:"جب کوئی شخص شادی کر لیتا ہے تو وہ اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے"۔ (مستدرک الوسائل: ج 14، ص 154)

یعنی زوجہ عبودیت میں ایک اہم محافظہ قرار پاتی ہے اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایمان و عبودیت کے بارے میں امام علی علیہ السلام کا فرمان ذیشان ہے کہ فرمایا:"میں نے اللہ کی اطاعت میں فاطمہ کو بہترین مددگار پایا"۔ (بحار الانوار، ج 43، ص 117)

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنی تمام تر زندگی قناعت کے ساتھ بسر کی، آپ سوچتی تھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ کا کوئی تقاضہ آ کے شوہر کو غمگین یا پریشان کردے۔

روایت میں نقل ہوا کہ ایک دن گھر می! غذا ختم ہوگئی امام علی علیہ السلام کچھ دن بعد گھر تشریف لائے امیرالمومنین علیہ السلام کے تقاضہ کرنے پر بی بی سلام اللہ علیہا نے تمام تر ماجرا امام علیہ السلام کو بیان کیا، جب جناب امیر علیہ السلام نے اطلاع نا دینے کے متعلق سوال کیا تو سیدہ سلام اللہ علیہا نے جواب میں عرض کی: "مجھے؛ للہ سے شرم آتی ہے کہ آپ کے حالات جانتے ہوئے بھی آپ کو زحمت دوں"۔ (مناقب آل أبي طالب، ابن شہر آشوب)

خدا نے بیشک زوجہ کے شوہر کی زندگی میں اسطرح سے حقوق مقرر فرمائیں ہیں کہ زوجہ کو شوہر کی شریک حیات قرار دیا لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے زوجہ پہ شوہر کی اطاعت بھی واجب قرار دی ہے۔ اس کی مجال جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں اسطرح سے ملتی ہے کہ سیدہ سلام اللہ علیہا کے آخری ایام میں خلیفہ اول اور خلیفہ دوم جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی تیمارداری کرنے کیلئے آنا چاہتے تھے لیکن جب انہیں ناراضگی کی وجہ سے جب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اجازت نہ دی تو انہوں نے امام علی علیہ السلام کا سہارا لیا اور سفارش کی درخواست کی۔ جب امام علی علیہ السلام نے سیدہ سلام اللہ علیہا سے مسئلہ بیان کیا تو سیدہ سلام اللہ علیہا نے جواب میں عرض کی: "یا علی علیہ السلام میں ان سے ملاقات نہیں کرنا چاہتی یہاں تک کے اپنے بابا ﷺ سے جا ملوں اور انکی شکایت کروں گی۔ مگر یا علی علیہ السلام یہ آپ کا گھر ہے اور اگر آپ نے انہیں تسلی دے دی ہے تو میں ہر گز آپ کے وعدے کے خلاف نہیں کروں گی"۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی)

پس، جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیاتِ زوجیت کا ہر پہلو آج کی مسلم عورت کے لیے ایک انمول درخشاں باب ہے۔ آپ کا اسوہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک مثالی شریکِ حیات کس طرح اپنے شوہر کے لیے سکون کا باعث بنتی ہے، اللہ کی اطاعت میں بہترین مددگار ثابت ہوتی ہے، اور قناعت و محبت سے ایک ایسا مضبوط گھرانہ تشکیل دیتی ہے جو آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت کا مرکز بنتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha