تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی|
اسلام کی تاریخ جب اپنے ورق کھولتی ہے تو ایک ہلکی سی کراہ، ایک دبی ہوئی سانس اُس کے دامن سے اُبھرتی محسوس ہوتی ہے؛ گویا وہ صدیوں کا دکھ سمیٹے یہ بتا رہی ہو کہ ہر دور میں کچھ چہرے ایسے بھی نمودار ہوئے جنہوں نے علم کی کمخواب ردا اوڑھ کر یقین کے ریشمی دامن کو چاک کرنے کی کوشش کی۔ ان کی زبان میں شکر کی مٹھاس، لہجے میں شائستگی کی لطافت، اور ظاہر میں خیرخواہی کی مہک ضرور ہوتی ہے، مگر ان سب خوشنما پردوں کے پیچھے ایک ایسا باریک زہر چھپا ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے دل کی مٹی میں اترتا ہے، اور ایمان کی جڑوں تک رسائی پا کر انہیں کمزور کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ آزمائش ہے جس سے امت بارہا گزری ہے—لباس روحانیت کا، لہجہ حکمت کا، مگر مقصود ایسی ہوا چلانا جو یقین کے چراغوں کو مدھم کر دے۔
اور جب کبھی یہ نرم لہجے، یہ پُرسکون آوازیں، اہلِ بیتِ اطہارؑ کے مقدس نام سے ٹکراتی ہیں؛ جب ان کے غم کی پاکیزہ حرمت پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے، یا چودہ صدیوں سے امت کے دل میں ودیعت اس محبت کو مشکوک بنایا جاتا ہے—تو پھر یہ محض فکری گفتگو نہیں رہتی؛ بلکہ یہ دلوں کی ویرانی کا آغاز بن جاتی ہے۔ کیونکہ اہلِ بیتؑ کی محبت کوئی خیال نہیں، کوئی روایت نہیں، یہ تو ایمان کی وہ لطیف خوشبو ہے جس کے بغیر روح کی مٹی خشک ہو جاتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو سینوں میں چراغ کی طرح جلتی ہے، نسلوں کو راستہ دکھاتی ہے، اور انسان کے باطن میں خدا کی معرفت کے دروازے کھولتی ہے۔ ایسی محبت پر حملہ دراصل قلبِ ایمان کی بنیاد کو گرانے کے مترادف ہے اور تاریخ نے ہمیشہ بتایا ہے کہ جو قوم دل کے چراغ بجھا بیٹھے، وہ پھر علم کے سورج سے بھی روشنی نہیں لے پاتی۔
اسی پس منظر میں جب سلیمانی اردستانی جیسے افراد، تحقیق کے نام پر اہلِ بیتؑ کے مصائب میں شبہات ڈالنے لگتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی نہایت باریک انگلیوں سے صدیوں کے ورثے کے تار کھولنے کی کوشش کر رہا ہو—وہ ورثہ جسے شہداء کے خون نے رنگ دیا، دعاؤں نے سنبھالا، اور گریہ و ماتم نے محفوظ رکھا۔ اردستانی کی باتوں میں نرمی ضرور ہے، لیکن معنی کی تہہ میں وہی پرانا انتشار چھپا ہوا ہے، وہی بے سمتی جو دل کو زخمی کرتی ہے اور امت کے احساس کو مجروح اور اگر امت کا احساس مجروح ہو جائے تو پھر علم بھی بے نور اور دلیل بھی بے وزن ہو جاتی ہے۔
اسی لیے ضروری ہے کہ ایسے فتنوں کا جواب غصے کی آنچ سے نہیں، علم کی شفاف روشنی سے دیا جائے؛ جذبات کی تیزی سے نہیں، حکمت اور وقار کی خاموش قوت سے، تاکہ حق کا چہرہ اور بھی روشن ہو، باطل کا پردہ اور بھی چاک، اور اہلِ بیتؑ کے چاہنے والے یہ پہچان سکیں کہ فتنہ کب، کہاں اور کس انداز سے جنم لیتا ہے، اور اس کی جڑ کہاں پیوست ہوتی ہے۔
اور تاریخ کے اسی نازک موڑ پر جب کوئی شخص یہ کہہ بیٹھے کہ “فاطمیہ کے واقعات ثابت نہیں” تو دل بے اختیار کانپ اٹھتا ہے۔ یہ جملہ صرف ایک انکار نہیں، یہ اُن آنسوؤں کی توہین ہے جو نسل در نسل رسولؐ کی لخت جگر کے غم میں بہتے رہے۔ یہ اُن سینوں کی بے حرمتی ہے جو اس مصیبت کو اپنا سرمایۂ ایمان سمجھتے آئے۔ یہ اُن چراغوں کے سامنے انکار کی دیوار کھڑی کرنا ہے جنہیں اہلِ بیتؑ کی محبت نے کبھی بجھنے نہیں دیا۔
کیونکہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پر ہونے والے مظالم ایک روایت یا دو واقعات کا نام نہیں—یہ تو تاریخ کی وہ اجتماعی صدائیں ہیں جو مختلف صدیوں سے اٹھتی چلی آئی ہیں۔ کبھی کوئی مؤرخ اپنی آنکھ کی نمی سے لکھتا ہے، کبھی کوئی راوی اپنی دیانت کی گواہی دیتا ہے، اور کبھی امت اپنا غم سینہ در سینہ منتقل کرتی ہے۔ ان سب صداؤں کا مجموعہ ایک ہی حقیقت پر انگشت رکھتا ہے: رسولؐ کی بیٹی کے گھر پر جو گزری، وہ امت کے دل پر لکھی ہوئی تاریخ ہے، کتاب کے صفحے پر نہیں۔
ایسے میں کسی کا یہ کہنا کہ “مجھے یہ سب بعید لگتا ہے”—گویا چودہ صدیوں کی شہادتوں پر ایک ہلکا سا ہاتھ رکھ کر انہیں مٹانے کی کوشش کرنا ہے۔ مگر سچائی وہ بیل بوٹا نہیں جو ہاتھ کی پشت سے جھڑ جائے؛ سچائی وہ درخت ہے جسے شہادتوں کا پانی ملا ہو، اور شہادت کبھی نہیں مرتی۔
اور پھر ایامِ فاطمیہ جیسے مقدس دنوں میں شبہات پھیلانا تو ایک الگ زخم ہے—وہ زخم جو لفظوں سے نہیں لگتا، بلکہ نیت کے تیر سے دل میں اترتا ہے۔ یہ وہ گھڑیاں ہوتی ہیں جب امت اپنے رسولؐ کی بیٹی کے غم میں آہ بھرتی ہے، جب گھروں میں سادگی چھا جاتی ہے، جب دلوں میں خاموش ماتم کی لہریں اٹھتی ہیں۔ ایسے وقت میں تحقیق کے نام پر شبہات کا چراغ جلانا گویا روتے ہوئے دل کے قریب آگ رکھ دینے کے برابر ہے۔
عزاداری پر اعتراض بھی اسی کم فہمی کی ایک صورت ہے۔ اہلِ بیتؑ کے غم کو جذباتیت کہنا ایسا ہی ہے جیسے کسی پیاسے کے آنسو کو پانی قرار دینے سے انکار کر دیا جائے۔ غم محبت کی علامت ہے، اور محبت ایمان کی بنیاد۔ جس دل میں اہلِ بیتؑ کے لیے نرمی نہ ہو، اس دل کی سختی دلیل سے نہیں ٹوٹتی، صرف معرفت کی بارش اسے نرم کرتی ہے۔
اور پھر امام جوادؑ کی شہادت کو گھریلو حسد کا نتیجہ بتانا—یہ تاریخ سے آنکھیں چرانے کی کوشش ہے۔ ظلم کا چہرہ خواہ کتنا ہی چھپایا جائے، اس کی بو زمانہ در زمانہ باقی رہتی ہے۔ جو چراغ حکومتوں نے بجھائے، انہیں کبھی تاریخ نے بجھنے نہیں دیا۔ امامؑ کی شہادت ایک نظامِ ظلم کی دین تھی، نہ کہ گھر کے کسی گوشے کی کہانی۔
اور بالآخر، تاریخ کے انکار کا نظریہ—یہ سب نظریات کا سب سے خطرناک پہلو ہے۔ تاریخ اگر معتبر نہ رہے تو پھر غدیر بھی محو، کربلا بھی محو، مباہلہ بھی محو اور رسولؐ کی سیرت بھی محض افسانہ بن جائے گی- یہ دراصل دین کی اُس جڑ کے کاٹنے کی کوشش ہے جس پر سارا درخت کھڑا ہے۔
اور سب سے تکلیف دہ پہلو—اہلِ بیتؑ کے چاہنے والوں کی تحقیر۔ یہ لوگ جن کی تکیہ گاہ محبت ہے، جن کا سرمایہ گریہ ہے، جن کا فخر وفاداری ہے—ان پر سخت جملے کہنا آسمان کے خلاف آواز اٹھانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اہلِ بیتؑ کے دوستوں کو اذیت دینا ان ہستیوں کی ناراضی مول لینا ہے جن کی محبت دین کی روح ہے۔
یہ سب باتیں ایک ہی حقیقت کی طرف لے جاتی ہیں: فتنہ ہمیشہ تلوار لے کر نہیں آتا، وہ کبھی کبھی نرم الفاظ میں لپٹے ہوئے آتا ہے۔ اس کے قدم خاموش ہوتے ہیں، لیکن اس کی زد دل پر سیدھی پڑتی ہے۔ سلیمانی اردستانی کے یہ نظریات—خواہ انہیں تحقیق کا نام دیا جائے یا تجدید کا—درحقیقت دلوں کی اس روشنی پر حملہ ہیں جسے اہلِ بیتِ اطہارؑ کی محبت نے چودہ صدیوں سے روشن رکھا ہے۔
یہ نظریات چار کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں: ایسا احساس جسے دلیل کا لباس پہنا دیا گیا ہو، ایسی تاریخ جسے اپنی خواہش کے مطابق مٹانے کی کوشش کی گئی ہو، ایسے شعائر جنہیں جذبات کہہ کر کم کرنے کا ارادہ ہو، اور ایسی امت جس کے دلوں کی نرمی کو نظرانداز کر دیا گیا ہو۔
مگر اللہ کی سنت یہی ہے کہ حق، چاہے تھوڑا ہو، باطل کے شور میں بھی اپنی پہچان نہیں کھوتا۔ سچائی، چاہے کتنی دبی ہو، دل کے دروازے پر جا کر چراغ بنا دینے کی قدرت رکھتی ہے۔ اور اہلِ بیتؑ کی محبت—وہ محبت جسے زہر کے گھونٹ بھی نہ بجھا سکے، وہ ماتم جسے تلواریں بھی نہ روک سکیں، وہ یقین جسے ظلمتوں نے بھی کم نہ کیا—یہ محبت زمانے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ نے اپنے نور کو خود حفاظت کا وعدہ دیا ہے۔
جو لوگ اس محبت کو کم کرنے نکلتے ہیں، وہ پہلے خود اندھیروں میں گم ہوتے ہیں۔ جو دل اس نور سے روکتے ہیں، وہ خود اندھیرے کی راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اہلِ بیتؑ کی عظمت کو چیلنج کرتے ہیں، وہ دراصل تاریخ کے سینے پر پتھر مارنے کی کوشش کرتے ہیں—مگر تاریخ ایسے پتھروں کو ہمیشہ لوٹا دیا کرتی ہے۔
خدایا ہمیں وہ نظر عطا فرما جو حق کو پہچان کر اس کا دامن تھام لے، اور وہ دل عطا فرما جو اہلِ بیتؑ کی محبت سے کبھی خالی نہ ہو۔ اے ربِّ کعبہ! ہمارے سینوں میں وہ چراغ روشن رکھ جو تُو نے فاطمہؑ کے در کے دروازوں سے امت کو عطا کیا۔ ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھ جو علم کے نام پر دلوں کی روشنی بجھانے آتے ہیں۔ ہمیں اُن لوگوں میں اٹھا جو حق کی سرزمین پر قائم رہتے ہیں، جو محبت کے قافلے سے جدا نہیں ہوتے، اور جن کے ہاتھوں میں اہلِ بیتؑ کی حرمت کا علم رہتا ہے۔ یا اللہ! ہمارے دلوں کے زخموں پر صبر کی بارش کر دے، ہمارے ارادوں میں استقامت ڈال دے، اور ہمارے قدم اس راستے سے کبھی نہ ہٹنے دے جسے محمدؐ و آلِ محمدؐ نے روشن کیا۔









آپ کا تبصرہ