تحریر: مولانا علی عباس حمیدی
حوزہ نیوز ایجنسی| شیعہ دینی مدارس علماء، مبلغین، محققین اور دینی رہنماؤں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں؛ اس لیے موجودہ کمزوریوں کا جائزہ اور ان کے اصلاحی حل پیش کرنا ایک علمی و سماجی ضرورت ہے۔
ذیل میں مدارس کی نارسائیوں اور ان کے مناسب حل کا منصفانہ اور حقیقت پر مبنی تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
۱. علمی اور نصابی نارسائیاں
نارسائیاں
۱۔ پرانا نصاب اور جدید علوم سے دوری
زیادہ تر درسی متون صدیوں پرانی ہیں اور جدید علوم—جیسے فلسفۂ مغرب، سماجیات، نفسیات، میڈیا اسٹڈیز وغیرہ—سے مربوط نہیں۔
۲۔ تحقیق کے اصولوں کی کمزور تعلیم
علمی تحقیق، حوالہ نویسی، تحقیقی مقالہ نویسی اور تنقیدی مطالعہ کی تعلیم بہت کم ہے۔
۳۔ زبان دانی کی کمزوری
عربیِ جدید، فارسیِ جدید، انگریزی اور ترجمہ کی مہارتیں کمزور ہیں۔
حل
نصاب کی جدید خطوط پر اصلاح
نصاب میں جدید فلسفہ، سماجیاتِ دین، جدید علمِ کلام، مواصلاتی علوم، تاریخِ ادیان اور مطالعاتِ تمدن شامل کیے جائیں۔
تحقیقی مراکز کا قیام
جامعۃالمصطفی جیسے ادارے تحقیق کے کورسز، ورکشاپس، مقالہ نویسی اور عالمی جامعات سے تعاون کے پروگرام شروع کریں۔
زبانوں کی تعلیم میں بہتری
عربیِ عملی، انگریزی برائے تحقیق، اور ترجمے کی مہارتوں کو لازمی بنایا جائے۔
۲. تربیتی اور شخصیّت سازی کی نارسائیاں
نارسائیاں
۱۔ ہمہ جہت شخصیت سازی کا فقدان
زیادہ توجہ نصاب پر ہوتی ہے؛ عملی اخلاق، خودسازی اور زندگی کی مہارتوں پر کم زور ہے۔
۲۔ غیر عملی اخلاقی تربیت
اخلاق کی تعلیم رسمی ہے، عملی اثر کم ہے۔
۳۔ معاشرے سے دوری
طلبہ کا معاشرے، میڈیا، دیگر مذاہب اور سماجی اداروں سے کم رابطہ ہے۔
حل
عملی تربیتی پروگرام
سماجی خدمات، عوامی رابطہ، سیرتِ اہل بیتؑ پر عملی تربیت، اور رویّوں کی مہارتوں کا فروغ۔
مدرسہ–معاشرہ ربط میں اضافہ
میدانی دورے، بین المذاہب مکالمے، اور روزمرّہ مسائل سے آگاہی۔
استادِ نمونہ کی موجودگی
اساتذہ اخلاقی اور عملی طور پر طلبہ کے لیے نمونہ ہوں۔
۳. تعلیمی (Teaching) نارسائیاں
نارسائیاں
۱۔ روایتی اور یک طرفہ تدریس
حفظ اور لیکچر پر مبنی نظام غالب ہے۔
۲۔ اساتذہ کی تربیت کا فقدان
نئے تدریسی طریقوں پر اساتذہ کی تربیت نہیں ہوتی۔
۳۔ سوال و جواب اور تنقیدی فکر کی کمی
طلبہ کھل کر سوال یا نقد نہیں کر پاتے۔
حل
جدید تدریسی طریقوں کا نفاذ
پریزنٹیشن، آزاد مباحثہ، مسئلہ پر مبنی مطالعہ اور سوال محور تعلیم۔
اساتذہ کی باقاعدہ تربیت
تربیتی ورکشاپس اور سالانہ کارکردگی کا جائزہ۔
آزاد فکری ماحول
طلبہ کو سوال، تحقیق اور تجزیے کی آزادی دی جائے۔
۴. انتظامی و تنظیمی نارسائیاں
نارسائیاں
۱۔ مالی شفافیت کا فقدان
روایتی حساب کتاب اور رپورٹنگ کا نظام ناقص ہے۔
۲۔ نصاب سازی کے لیے مرکزی ادارے کی کمی
ہر مدرسہ الگ نصاب چلاتا ہے؛ کوئی مشترکہ پالیسی نہیں۔
۳۔ کارکردگی کا غیر جامع جائزہ
جانچ صرف امتحانات تک محدود ہے۔
حل
مالی شفافیت
ڈیجیٹل اکاؤنٹنگ، سالانہ رپورٹس، اوقاف کی درست نگرانی۔
مشترکہ علمی کمیٹی کا قیام
ماہرین کی مدد سے جدید نصاب سازی۔
طلبہ کی ہمہ جہت ارزیابی
اخلاق، سماجی مہارت، تحریری صلاحیت، خطابت اور ذمہ داری کا جائزہ۔
۵. سماجی و فکری نارسائیاں
نارسائیاں
۱۔ فکری تعصب یا تنگ نظری کا خطرہ
کچھ مدارس میں فکری کشادگی کا فقدان ہے۔
۲، جدید عالمی چیلنجوں سے ناواقفیت
الحاد، سیکولرزم، لبرل ازم اور جدید اخلاقی و سماجی نظریات کا کم علم۔
۳۔ طلبہ کی معاشی کمزوری
زیادہ تر طلبہ مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔
حل
میانہ روی اور مکالمے کا فروغ
اہل بیتؑ کی تعلیمات کے مطابق فکری اعتدال۔
معاصر فکری مسائل کی تعلیم
الحادِ جدید، لبرل نظریات، جدید سیاسی فلسفہ، سماجی نفسیات وغیرہ۔
ہنر اور معاشی صلاحیتوں کی تربیت
آئی ٹی، ترجمہ، میڈیا، تحقیق اور تقریر کی پیشہ ورانہ تربیت۔
۶. معنوی و اخلاقی نارسائیاں
نارسائیاں
۱۔ منظم عبادت اور معنوی مشقوں کی کمی
۲۔ دعا و اخلاق کا رسمی ہونا
۳۔ فعال اساتذۂ اخلاق کی کمی
حل
منظم روحانی پروگرام
قرآن، تہجّد، دعا و مناجات، اور روزانہ خودسازی کے منصوبے۔
ہمہ وقت فعال استادانِ اخلاق
اساتذہ طلبہ کی زندگی میں عملی کردار ادا کریں۔
نتیجہ
اہم کمزوریاں
• پرانا نصاب
• جدید تدریسی طریقوں کی کمی
• تربیتی اور اخلاقی کمزوریاں
• کمزور سماجی و مواصلاتی مہارتیں
• جدید علوم سے ناواقفیت
• انتظامی شفافیت کا فقدان
اہم حل
• نصاب کی اصلاح
• تحقیق و مطالعہ کا فروغ
• عملی اور ہمہ جہت تربیت
• شفاف اور جدید انتظامی نظام
• معاشرے سے مضبوط رابطہ
• جدید زبانوں کی تعلیم
• طلبہ کی معاشی خودکفالت









آپ کا تبصرہ