تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی|
یہ سوال بظاہر چھوٹا ہے، مگر حقیقت میں ایک بڑی فکری غلطی اور انحراف کی نشاندہی کرتا ہے۔ مسئلہ صرف اس منبری افسانے کے بے سند ہونے کا نہیں، بلکہ اس ذہن کا ہے جس نے اہلِ بیتؑ کی زندگی پر بھی وہی جاگیردارانہ رنگ چڑھانے کی کوشش کی ہے جو ہمارے آج کے بگڑے ہوئے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ کیا واقعی یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سواری پر بیٹھیں اور جناب فضّہ ان کے ناقے کی مہار تھامے کھڑی ہوں—گویا ایک دائمی خادمہ؟
یہ منظر خود اپنے اندر بد تہذیبی اور طبقاتی تفریق رکھتا ہے، اور اہلِ بیتِ اطہارؑ کی سیرت اس سے یکسر پاک ہے۔
اسلام نے سب سے پہلے آقا و غلام کے درمیان حائل دیوار گرائی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا حکم ہے:
إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ
یہ (غلام) تمہارے بھائی ہیں۔
اور قرآن مجید نے انسانوں کے درمیان برتری کا معیار یوں بیان کیا:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
بیشک اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ (الحجرات: 13)
اہلِ بیتؑ کا گھرانہ اسی قرآن اور اسی نبوی تربیت کا سب سے پہلا مظہر تھا۔ نہ وہاں نوکر–مالک کا نظام تھا، نہ کنیز–مالکہ کی تقسیم۔ جناب فضّہ ہوں یا قنبر، یہ لوگ نہ “خادم” تھے اور نہ وہ ہمارے آج کے گھروں میں موجود ملازمین کی طرح کوئی “نچلا طبقہ” تھے۔ یہ سب اعزّہ، محبین، ہم نشین اور اہلِ بیتؑ کے نورانی ماحول کے مقیم تھے۔ بہت سے ایسے افراد کو امیرالمؤمنینؑ اور سیدہؑ نے آزاد کیا، مگر انہوں نے محبت میں وہیں رہنا پسند کیا۔
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ڈیوڑھی میں داخل ہو کر کوئی دیکھتا تو اسے وہاں حقوق کا نہیں، خدمتوں کا بٹوارہ دکھائی دیتا۔ تاریخ و حدیث میں ملتا ہے کہ بی بیؑ خود جناب فضہ کے ساتھ باری باری کام کیا کرتی تھیں۔
سیدۃ النساءؑ کے بارے میں روایت ہے:
كانتْ فاطمةُ تَطحنُ بالرَّحى حتى مجلت يداها
فاطمہؑ چکی پیس پیس کر اپنے ہاتھوں پر چھالے ڈال لیا کرتی تھیں۔(المناقب لابن شہر آشوب، ج 3، ص 119)
جب گھر میں مشقت زیادہ ہوتی تو سیدہؑ نے جناب فضّہ سے باری باری کام کرنے کی تجویز رکھی۔ یہ اہلِ بیتؑ کی عملی تعلیم ہے، نہ کہ وہ تصور جو آج بعض ذاکرین گھڑ کر سناتے ہیں۔
پھر یہ کہنا کہ جناب فضّہ ہمیشہ بی بیؑ کے پیچھے ایک نوکرانی کی طرح کھڑی رہیں—یہ محض ہمارے طبقاتی ذہن کی پیداوار ہے، نہ اہلِ بیتؑ کی تعلیم کا حصہ۔ اسی لیے مولائے کائناتؑ فرماتے ہیں:
النَّاسُ صِنْفَانِ: إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ أَوْ نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ
لوگ دو ہی قسم کے ہیں: یا تو تیرے دینی بھائی، یا تیری ہی طرح انسان۔(نہج البلاغہ، خطبہ 53)
اگر دنیا میں ان اصولوں کے تحت رہائش تھی، تو کیا جنت میں—جو سراپا عدل، کرم اور حسنِ اخلاق کا مقام ہے—وہاں بھی یہی طبقاتی سلسلہ جاری رہے گا ؟
ہرگز نہیں۔
اب روایت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو
ایسی کوئی صحیح، ضعیف، مرسل یا غیر معتبر روایت شیعہ و سنی کسی بھی حدیثی مصدر میں موجود نہیں کہ جناب فضّہ بی بی زہراؑ سے پہلے جنت میں جائیں گی کیونکہ وہ ناقے کی مہار تھامے ہوں گی۔
عقائد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہونا چاہئیے:
جنت میں داخل ہونے کا معاملہ درجات اور شرف کا ہے، نوکری اور نوکرانی کا نہیں۔ روایت ہے کہ:
اَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله هُوَ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
کمال الدین و تمام النعمة، شیخ صدوق، ج 1، ص 258، باب ما روي عن النبيّ في النصّ على الأئمّة.
اور بی بی فاطمہؑ کے بارے میں فرمایا:
فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
فاطمہؑ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
(صحیح بخاری و مسلم)
تو جہاں حضورؐ کے بعد اہلِ بیتؑ کے مراتب مقرر ہیں، وہاں یہ بات کہ “فضّہ سب سے پہلے جائیں گی” سراسر ترتیبِ مراتب کے خلاف ہے۔
فہمِ سیرت کے اعتبار سے:
معصومینؑ کے مزاج میں غلامی کا تصور ہی موجود نہیں۔ پھر جنت میں ایک “ناقہ” اور اس کی “مہار” پر بنیاد رکھ کر ایک بے بنیاد پورا فضیلتی نظام کھڑا کر دینا—اس کا نہ کوئی اصولی جواز ہے، نہ حدیثی اصل۔
اسی لیے یہ کہنا کہ: “جناب فضّہ اس لیے پہلے جنت میں جائیں گی کہ وہ ناقے کی مہار تھامے ہوں گی۔”
صرف بے سند بات ہی نہیں، بلکہ اہلِ بیتؑ کی تعلیمات کی روح کے بھی خلاف ہے۔ جناب فضّہ کی عظمت ان کے ایمان، تقویٰ، صبر اور قرآن سے انس میں ہے—کہ جنہوں نے قرآنِ کریم کو ستر زبانوں میں بیان کیا۔ یہی ان کا مقام ہے، نہ کہ کوئی منبری حکایت-
ضروری ہے کہ جو لوگ منبر پر جھوٹی روایتیں اور گڑھے ہوئے قصے بیان کرتے ہیں، انہیں وہیں مناسب انداز میں روک کر اصلاح کی جائے۔ شاید اس طرح اس بے راہ روی کو کچھ کنٹرول کیا جا سکے۔ ورنہ یہ بے احتیاط زبانیں ہمارے دین کی سچائی اور ہمارے ایمان کی پاکیزگی کو ماند کرتی چلی جائیں گی۔









آپ کا تبصرہ