تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی|
عشق کا ٹوٹنا اور ہجر میں بکھرنا…
اگر کسی کی چشمِ ناتوان کو دیکھنا ہو تو وہ تاریخ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے آنگن میں علی علیہ السلام کی وہ تنہائی کی راتوں کو دیکھے، جن میں صاحبِ ذوالفقار صبر کی دھار دار تلوار کو تھام کر کس طرح درد و الم کے گھونٹ پی رہے ہیں۔
چہرہ خاک آلود، پیشانی پر صبر و شکیبائی کی شکنیں، شدتِ گریہ و زاری سے اشکوں میں ڈوبی ہوئی ریشِ مبارک، غم و اندوہ سے بوجھل پلکوں کے شبستانوں سے بہتی ہوئی فراتِ صبر و ضبط، یا آنکھوں سے چھلکتا ہوا اشکوں کا جام…
ایک عشق کے ٹوٹنے اور محبوب سے ہجر کے داغ کی ایک کربناک داستان سنا رہا ہے۔
بھلا کون اور کیسے اس پاکیزہ عشق و شغف کو لفظوں کا پیراہن پہنائے؟
کیسے ملکۂ حجاب کی محبت اور امامِ حیاء کے باہمی تعلقات یا سفرِ حیات کے نغمیات کی عکاسی کرے؟
جہاں قرآن نے چہرے کی چمک کو
والشمس والضحاھا
(قسم ہے سورج کی جب وہ چمکنے لگے) سورج کہا تو "وَالضُّحٰى" (قسم ہے روشن دن کی) کی چلمن چڑھا کر صبحِ ہدایت کی ٹھنڈک کا اعلان فرمایا۔
ستارۂ زہرہ کا دہلیزِ زہرا پر بوسہ حضرتِ مرتضیٰؑ کے لئے حضرتِ راضیہ و مرضیہ کا انتخاب ہے، اور جب سلسلہ آسمان سے نازل ہوا ہو تو تنزیل میں زواج کا استعارہ "مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ" (دو سمندروں کو ملا دیا) سے کیا گیا۔
پھر "يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ"
(ان دونوں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں –
سے نسلِ ابراہیم اور ذریت اسماعیل کے آنے کی بشارت دی گئی۔
اور اس بشارت کو مزید ثمر آور بنانے کے لئے
"اِنَّا اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ"
(ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کی –
کا نغمہ فضا میں گونجا،
اور "وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى"
(اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے)
کے وعدے کی لاج قدرت نے اپنے مشتقات میں رکھی۔
وحدت کی تجلی میں کوثر کا آئینہ رکھا گیا، اور نسلِ کثیر کے جھرمٹ میں ہلالِ امامت کے دوام و استمرار کا مژدہ سنایا گیا۔
مباہلہ ان کی صداقت کا قصیدہ ہے۔
اور " قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا"
(انہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر اسی پر قائم رہے –
ان کی استقامت کی دلیل ہے۔
اور "وَمَا تَشَاؤْنَ اِلَّا اَنْ يَّشَاءَ اللّٰهُ"
(تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللہ چاہے –
ان کی مشیتِ الٰہی کی روشن نشانی ہے۔
آیتِ تطہیر:
"إِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا"
(اے اہلِ بیت! اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تم سے ہر رجس دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنائے –
ان کے طہارت کا محور و مرکز ہے۔
اور "قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى"
(کہہ دیجئے! میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر قرابت داروں کی محبت)
مودت کا وجوب ثابت کرتی ہے۔
"وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا"
(اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں –
ان کے ایثار کی ادا ہے۔
اور روٹیوں کی تقسیم ان کی سخاوت کا ملا جلا سنگم ہے۔
اور یہ آیت ربانی:
"لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُوْرًا"
(ہم نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری –
ان کے اخلاصِ عمل کی زندہ علامت ہے۔
سورہ نور کی آیتِ نور میں "کوکبٍ دُرِّیٍّ"، مشکاة و زجاجہ کی تشبیہ شمع اور فانوس کی قربت اور حفاظت کا کنایہ ہے۔
ہاں مگر جب منقبتوں کی تسبیح کے دو امامی دانوں کی جدائی نے تسبیح کے ایک دانے کو شکستہ کردیا تو دوسرا دانہ یعنی شیرِ خدا کی شمشیر دستِ الٰہی میں رہ گئی۔
مگر نہ لبوں پر شکوہ آیا نہ شکایت۔
ہاں! جب حیات کا پیمانہ چھلکا اور شہادت کا عرقِ تمنا پیشانی سے بہنے لگا تو ملکۂ عصمت کے دہنِ اقدس سے بشکلِ وصیت ایک آہِ سرد نکلی:
"یا علیؑ! کیا میں نے ہمسری کا حق ادا کردیا؟ کوئی کمی تو میرے عشق میں نہیں رہ گئی؟
بس اب اجازت دے دیں۔ ہم راضیہ ہیں، آپ مرتضیٰ ہیں، رب کریم ہم سے راضی ہو۔
اور ایک زحمت بعنوانِ وصیت یہ ہے کہ میرے قاتل میرے جنازے میں نہ آئیں۔
ملکۂ حجاب کا جنازہ ہے، مکمل ظلمتِ شب کے حجاب و حصار میں اٹھے۔
یا علیؑ! میری قبر پر آتے رہنا تاکہ مجھے قبر کے اکیلے پن کا احساس نہ ہو، اور آکر قرآن پڑھتے رہنا کہ فاطمہ کو تلاوتِ کلامِ ربانی بہت پسند ہے۔"
یہ وصیت لمحۂ فکریہ ہے—قرآنی سماج کو سنوار کر قلبِ زہرا کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کے لئے۔
کتنا دردناک منظر ہوگا جب علیؑ جیسا جری، بہادر سورما، ساونتِ خیبر شکن، شیرِ خدا اپنے غیض و غضب پر قابو پاکر صابرہ کی چشمِ تمنا سے حسرتوں کے ڈھلکتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھتے رہے ۔
عاصی کے قلم سے عصمتوں کے صحیفوں کی منظر کشی کے رنگ کیسے کھینچے جائیں!
کوثر و سلسبیل کی موجوں میں بھی تلاطم مچ جائے اگر داستانِ عشقِ علی و فاطمہ کی نقشہ کشی کی جائے۔
اس درد و کرب کو سمجھنا طائرِ تخیل کے پروں میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔
پرواز کی حدیں ادراک سے بالاتر نظر آتی ہیں۔
مگر جب حضرت علی علیہ السلام بوجھل قدموں سے جنابِ سیدہ طاہرہ صابرہ محدثہ صدیقہ زکیہ اُمّ ابیھا کو پیوندِ خاک کر کے پلٹے،
اس بھیانک رات کی تنہائی میں بچوں سے چھپ چھپ کر رونا،
اپنی کم خوابی کا مرثیہ پڑھنا،
نبیؐ کی بارگاہ میں دردِ دل کا اظہار کرنا
کس انداز میں تھا—کبھی تاریخ کے سینے پر ثبت نہ ہوتا اگر صاحبِ نہج البلاغہ اپنے دہنِ اقدس سے برملا اس کا اظہار نہ کرتا۔
وہ جو الفاظ کہے گئے، وہ لوحِ تاریخ کے چہرے پر اپنی معنویت کی چمک چھوڑ گئے۔
اور علیؑ کے آنسوؤں کی بوندوں کے ستاروں نے تاریخ کی گلیوں میں اتنا اجالا پھیلا دیا کہ اب کسی تاریک زادے سے وہ مصائب چھپائے نہ جا سکیں گے۔
آئیے!
ٹوٹا ہوا شیشۂ عشقِ علیؑ اور بکھرا ہوا ہجر کا سماں کیا تھا—خود علیؑ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی تدفین کے وقت علی علیہ السلام کے درد بھرے جملے
یا رسول اللہؐ!
آپؐ کو میری جانب سے اور آپؐ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپؐ سے جلد ملحق ہونے والی آپؐ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا، میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن آپؐ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپؐ کی رحلت کے صدمہ جاںکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا، جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپؐ کی روح نے پرواز کی کہ آپؐ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون، اب یہ امانت پلٹا لی گئی، گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی، لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپؐ رونق افروز ہیں۔
وہ وقت آ گیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا ۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں، حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔
آپؐ دونوں پر میرا سلامِ رخصتی ہو، نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپؐ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لیے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔ نہج البلاغہ خطبہ 202









آپ کا تبصرہ