منگل 2 دسمبر 2025 - 12:12
دوستی  ایک انتخابی رشتہ

حوزہ/ دوستی وہ عظیم رشتہ ہے جسے گلشنِ حیات کے پھولوں میں شجروں کی شاخوں پر سے نہیں لیا گیا بلکہ اسے خود انسان نے اپنے لئے منتخب کیا ہے۔ اکثر رشتوں کے پھول قدرت نے خانوادوں کے شجروں کی شاخوں پر آویزاں کئے ہیں جن کو خون کا رشتہ کہا جاتا ہے، مگر یہ صداقت و دوستی کا رشتہ اس گُل کے مانند ہے۔

تحریر : مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی|

دوستی وہ عظیم رشتہ ہے جسے گلشنِ حیات کے پھولوں میں شجروں کی شاخوں پر سے نہیں لیا گیا بلکہ اسے خود انسان نے اپنے لئے منتخب کیا ہے۔ اکثر رشتوں کے پھول قدرت نے خانوادوں کے شجروں کی شاخوں پر آویزاں کئے ہیں جن کو خون کا رشتہ کہا جاتا ہے، مگر یہ صداقت و دوستی کا رشتہ اس گُل کے مانند ہے، جسے کوئی خوب صورت حسینہ اپنی سیاہ دراز زلفوں میں سجاتی ہے۔ یہ اس کا اپنا حسنِ انتخاب ہے کہ کس گُل کو شرفِ قبولیت عطا کرے۔ گلشنِ ہستی میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پھول بکھرے ہوئے ہیں جو بیش قیمت بھی ہیں اور ارزِشِ قیمت بھی، مگر یہاں بحث قیمت کی نہیں بلکہ لائقِ استعمال ہونے کی ہے۔
بس اسی طرح سے انسان اپنی زلفِ حیات میں کچھ شخصیات کا انتخاب کرتا ہے جن سے اس کی حیات کا حسن، اس کی خوشبو اور اس کے معیار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ رشتہ دو طرفہ ہے اور من جمیعِ الجہات مفید و کارآمد ہے، بس شرط یہ کہ اس رشتہ کی مٹھاس کو محسوس کیا جا سکے اور اسے خود غرضیوں کے کیڑوں سے محفوظ رکھا جائے۔

ویسے اس کی ایک خوب صورت تشبیہ ایک بیاتہ کے مانگ کے سندور کی مانند ہے جو اس کی سیاہ زلفوں میں رنگینیِ حیات اور سرخیِ شفق کی علامت بن کر رشتہ کا شَفَقی اور رفعتی معیار بتا رہا ہے۔ مگر چونکہ ہم مہا پرشوں کے درمیان بود و باش کرتے ہیں تو یہ تشبیہ از لحاظِ فکر مناسب ہے۔ مگر اس خود غرض سماج میں دھرم کی دیواروں میں نفرت کی دراڑیں ڈال دی گئی ہیں، اس طرح پڑوسیوں کے حقوق تک پامال کئے جا رہے ہیں، جبکہ اس گنگا جمنی تہذیب کے تقاضوں میں پیار اور محبت کے پانی کا بہاؤ جاری ہے اور اس سنگم پر جمع ہو کر رشتوں کی تشنگی کو سیراب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

دونوں تشبیہات عقلِ سلیم تو قبول کرتی ہے اور ادب کی چاشنی کا ذائقہ بھی بیان کرتی ہے، مگر افسوس اس دور کے سقیم الطبع اور متحجر العقول اسے شاید تسلیم نہ کریں۔ بہر کیف انسانی زندگی کی الجھی ہوئی دراز زلفوں میں دوستی کی کنگھی سے بہت سے مسائل سلجھائے جا سکتے ہیں، کیونکہ یہ گُلِ زیبا زندگی میں فقط خوشبو ہی نہیں بکھیرتا بلکہ شخصیت کے حسنِ انتخاب اور سلیقۂ حیات کا پتہ دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ زلفوں کا گجرا یا گُلِ زیبا کچھ ہی وقت کے بعد مرجھا جاتا ہے۔

جی! یقینا ایسا ہے مگر اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنا مکمل شباب، مکمل حیات اور مکمل خوشبو زلفِ دراز میں بسا کر جاتا ہے اور اپنی میعاد اور مقررہ وقت کو پورا کرتا ہے۔ دوست وہی گُلِ زیبا ہے جو زلفِ حیات میں خوشبو بسا جائے، اپنے شباب اور حیات کو دوست کے لئے لٹا جائے، اور جس معینہ اور مقررہ وقت میں آئے، مکمل ایثار و قربانی دے کر وادیِ احساس کو آباد کر جائے اور حسنِ انتخاب کی لاج رکھ جائے۔

بس اس رشتہ کی پاکیزگی میں سنگِ میل خلوص کو حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوفہ کے کیچڑ میں جو صداقت کا کنول کھلا تھا، اس گُلِ زیبا کا انتخاب کربلا کی سلجھی ہوئی دراز زلفوں میں سجانے کا کیا گیا اور حبیب ابنِ مظاہر نے اپنی زندگی کے ہر ریگِ گُل کی خوشبو کو لٹا کر اس صحرائے نینوا میں اپنی خوشبو کو بکھیر دیا۔ شہادت کا رنگ اس کنول کے چہرے پر مزید گہرا ہوتا گیا اور حسن اتنا نکھرا کہ شفق کی سرخی شرمانے لگی، خاکِ شفا اترانے لگی اور دوستی فخر و مباہات کا قصیدہ سنانے لگی۔ اس دور کو محبت کا نغمہ گنگنانے لگی اور اس خاموش سماج کی دُکھتی ہوئی بیمار رگوں کو مسیحائی کا مژدہ سنانے لگی۔ جان دے کر جان دینا سکھانے لگی اور بتایا کہ جو دعا کر کے تمہاری زندگی بچائے اس کا قرضِ حیات شہادت دے کر چکاؤ گے تو زانویِ امام کا شرف ملے گا۔

اور یہی وہ شرف ہے جو سرِ حبیب نے پایا اور بتایا کہ میں اس گُلِ زیبا سے کہیں بہتر ہوں جو زلفوں میں سجایا جائے۔ میں زانویِ امامت میں سجنے والا گلشنِ عزت ہوں جو کبھی نہ مرجھائے گا اور نہ کبھی اپنے وقتِ عینی و مقررہ کے حدود میں محدود رہے گا۔ میں شہادت کی آفاقیت میں اس طرح گم رہوں گا کہ میری ہر ریگِ گُلِ حیات شہادت کے آبِ حیات سے زندگی کا عنوان بن جائے گی۔ دنیا دوستی پر جب بھی ناز کرے گی، اس کی ناز برداری میں حبیب کی جلوہ نمائی ضرور ہوگی۔

اور سرکارِ سید الشہداء نے اپنے حبیب کو بلا کر بتایا کہ خون کے رشتے ساتھ چلتے ہیں مگر فقیہ اور دوستی کو منتخب کر کے انفرادی عظمت کو اجاگر کیا جاتا ہے، اور پھر ان کے لہو کی سرخی کو خون کے رشتوں میں شامل کر کے عزت و شرف سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عقیلۂ بنی ہاشم کسی کو سلام کرے، مگر شہیدِ نینوا کی دوستی کی رفعت یہ ہے کہ اسے زینتِ پدر سلام کر کے مزید عز و شرف کو پروان چڑھا دے، تاکہ قربانیوں کی روش کو فراموشی کے نہاں خانوں میں نہ سجایا جا سکے۔

لہٰذا دوستی کو کربلا نے امر کر دیا ہے۔ یہ عجیب سرزمین ہے جہاں شخصیتوں کا ذبح کیا جاتا ہے اور رشتوں کو سرمدیت کا سرمایہ ملتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha