تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| ہر عہد کی پیشانی پر کچھ نام ایسی عبارت بن کر ابھرتے ہیں جو وقت کے رخ کو بدل دیتے ہیں۔ وہ زندگی کو محض جینے کا عمل نہیں سمجھتے، بلکہ ایک مسلسل جدوجہد اور مقصد کا سفر جانتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زمانے کے عام انسانوں جیسے دکھائی ضرور دیتے ہیں مگر اُن کے حوصلے میں وہ پختگی ہوتی ہے جو وقت کو جھکا نہیں پاتی، اُن کے جذبے میں وہ حرارت ہوتی ہے جو نسلوں کی رگوں میں نئی زندگی دوڑا دیتی ہے، اور ان کے عمل میں وہ صداقت ہوتی ہے جو صدیوں تک تاریخ کے اوراق پر مہکتی رہتی ہے۔
یہ لوگ پشت پر مال و دولت کے انبار نہیں چھوڑتے، لیکن علم کی میراث، فکر کی روشنی، اور کردار کی خوشبو چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کو مقصد میں فنا کر دیتے ہیں اور مقصد کو قوم کی تقدیر میں شامل کر دیتے ہیں۔
انہی مردانِ باصفا میں مولانا ڈاکٹر سید کلبِ صادق نقوی کا شمار ہوتا ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، ایک پورا دور تھے—بیداری کا دور، علم کا دور، کردار کا دور، اور محبت کا دور۔ وہ مصلح بھی تھے، معلم بھی، خطیب بھی، فقیہ بھی، اور سماج کے لیے ایک بے مثال راہبر بھی۔
مولانا — ایک شخصیت نہیں، ایک عہد:
مولانا کلبِ صادق ان نابغۂ روزگار ہستیوں میں سے تھے جن کے رخصت ہونے سے صرف ایک خاندان یا ایک حلقۂ فکر نہیں، پوری قوم یتیم محسوس کرتی ہے۔
وہ مردِ آہنی تھے لیکن ان کی سختی میں محبت کی نمی شامل تھی۔ وہ حکیمِ امت تھے مگر ان کی دانائی میں عاجزی کی لطافت گھلی ہوئی تھی۔ وہ معمارِ تعلیم تھے لیکن ہاتھ میں تختۂ سیاہ نہیں، دلوں کو روشن کرنے کا چراغ رکھتے تھے۔
ان کے سینے میں علم کی شمع بھی روشن تھی اور عمل کی تپش بھی۔ وہ نہ کبھی تھکے، نہ رکے، نہ حالات سے خائف ہوئے۔ زندگی نے انہیں جس جس بھٹی میں ڈالا، وہ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ نکھر کر نکلے۔
ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تین تھے:
(1) علم سے بے پناہ محبت
(2) اتحاد کی مسلسل فکر
(3) خدمت کا جنون
یہ تینوں اوصاف انہیں ہر مجمع میں ممتاز کر دیتے تھے۔ ان کی گفتگو میں نرمی بھی ہوتی اور دلیل بھی۔ وہ زبان سے کم اور دل سے زیادہ بات کرتے تھے؛ اسی لیے ان کی بات دلوں پر نقش ہو جاتی تھی۔
عبادت — خدمت کے رنگ میں ڈھلی ہوئی:
مولانا کا محبوب ترین لفظ “کام” تھا۔
وہ اکثر فرمایا کرتے:
“عبادت صرف نماز اور روزہ نہیں؛ انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو، یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔”
ان کے نزدیک سجدہ بھی ضروری تھا اور کسی یتیم کی فیس کا انتظام بھی؛
نماز بھی ضروری تھی اور کسی پریشان دل کو امید دلانا بھی؛
روزہ بھی اہم تھا اور کسی بے سہارا گھر کی مدد کرنا بھی۔
وہ عبادت کے اس وسیع مفہوم کے نمایاں ترجمان تھے جو انسانوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور دلوں میں روشنی بکھیر دیتا ہے۔
زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے لبوں پر کوئی ذاتی آرزو نہ تھی۔ بس یہ التجا تھی:
“خدایا! مجھے کچھ مہلت دے دے، تاکہ اپنا کام مکمل کر لوں۔”
یہ جملہ محض ان کی دعا نہیں تھا؛ یہ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھا۔
جو لوگ آخری لمحے تک “کام” مانگتے ہیں، ان کی موت روشنی بجھنے نہیں دیتی—چراغوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
علم — مولانا کی تحریک کا بنیادی ستون:
مولانا کلبِ صادق کی پوری حیات کا مرکز “تعلیم” تھا۔
وہ بارہا کہتے تھے:
“قومیں عمارتوں سے نہیں، تعلیم سے بنتی ہیں۔
جب تک جہالت زندہ ہے، کوئی قوم زندہ نہیں کہلا سکتی۔”
اسی یقین نے ان کی زندگی کو تحریک بنا دیا۔
انہوں نے قوم کو بتایا کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی محض عمارتیں نہیں، قوم کے مستقبل کی نرسریاں ہیں۔
انہوں نے اپنی بصیرت اور مستقل مزاجی سے ایسے ادارے کھڑے کیے جو آج ہزاروں گھرانوں کی تقدیر بدل رہے ہیں:
• یونٹی کالج
• یونٹی اسکولز
• یونٹی مشن
• ایم یو کالج
• ایرا میڈیکل کالج
• انڈسٹریل ٹریننگ سینٹرز
• کمپیوٹر سنٹرز
• اور بے شمار اسکالرشپ و تعلیمی پروگرام
یہ سب ادارے ان کے اس عقیدے کی عملی تصویر ہیں کہ غربت کا اصل علاج خیرات نہیں بلکہ تعلیم ہے۔
اور آج ہندوستان بھر میں ہزاروں نوجوان ان اداروں سے نکل کر اپنی زندگیوں میں روشنی اور ترقی کے نئے دروازے کھول رہے ہیں۔
اتحاد — وہ مشن جس کے لیے وہ جئے:
مولانا کا دوسرا بڑا عنوان “اتحاد بین المسلمین” تھا۔
وہ بڑی سادگی سے کہتے تھے:
“شیعہ اور سنی دشمن نہیں، دونوں کا دشمن جہالت ہے۔”
انہوں نے ایسے وقت میں دلوں کو جوڑا جب لوگ دل توڑنے کو اپنی فتح سمجھتے تھے۔
لکھنؤ میں شیعہ سنی کشیدگی کم کرنے میں ان کا کردار تاریخ کے روشن ترین صفحات میں درج ہے۔
وہ بارہا یہ پیغام دیتے:
اس ملک کے تین دشمن ہیں:
1. غربت
2. جہالت
3. کرپشن
جب یہ تین ختم ہو جائیں گے تو ہندوستان دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔
انہوں نے ہمیشہ دلوں کے درمیان محبت کے پل بنائے۔ ان کی گفتگو میں توازن، نرمی اور خیرخواہی کی خوشبو ہوتی تھی۔
وہ سمجھاتے تھے کہ اختلاف ایک فطری چیز ہے، مگر اختلاف کو نفرت میں بدل دینا قوموں کی بربادی کا دروازہ ہے۔
ان کی علمی، فکری اور تحریری میراث:
مولانا کی علمی اور فکری میراث نہایت وسیع اور پُرتاثیر ہے۔
ان کی کتابیں آج بھی نوجوان ذہنوں کو سمت دیتی ہیں:
• تاج شکن
• نیو یارک سے قم تک
• خطباتِ جمعہ
• قرآن اور سائنس
• اسلام دینِ حق
• تعلیم کی اہمیت
• اور مجالسِ حسینی کے مجموعے
یہ کتابیں صرف صفحات کا مجموعہ نہیں، بلکہ علم، بصیرت اور حکمت کے چشمے ہیں۔
وہ عربی، فارسی، اردو ھندی اور انگریزی زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔
ان کا خطیبانہ اسلوب نہ چیختا تھا، نہ بلند آہنگ ہوتا تھا۔
لیکن ان کے الفاظ دلوں میں یوں اترتے جیسے خشک زمین پر شبنم اترتی ہے۔
ان کی آواز میں سوز تھا اور دلیل میں روشنی—یہی دو چیزیں سامع کے دل میں یقین پیدا کرتی تھیں۔
رخصتِ جاں — مگر روشنی باقی:
24 نومبر 2020 کی رات، علم و حکمت کا یہ تابناک سورج
ہزاروں آنکھوں کو اشکبار چھوڑ کر اپنے رب سے جا ملا۔
ان کی نماز جنازہ وحدت کا ایک بے مثال منظر تھی—
شیعہ بھی، سنی بھی؛
علماء بھی، عوام بھی؛
ہندو بھی، عیسائی بھی۔
یہ وہ منظر تھا جو بتاتا ہے کہ سچے لوگ فرقوں سے نہیں، دلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
مولانا کلبِ صادق اب مٹی میں نہیں،
قوم کے دلوں میں، اداروں میں، کتابوں میں،
اور اُن خوابوں میں بستے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ زندگی بھر لڑتے رہے۔
دلوں میں بسنے والے کبھی نہیں مرتے۔
پروردگارِ عالم!
اس مومنِ خالص، اس عاشقِ علم، اس معمارِ اتحاد پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرما! ان کے درجات کو اعلیٰ علیین میں بلند کر! ان کی کاوشوں کو قبول فرما اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس چراغ کو بجھنے نہ دیں جسے انہوں نے اپنی زندگی سے روشن کیا۔
آمین یا رب العالمین









آپ کا تبصرہ