حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہیئتِ سید الشہداء العالمیہ قم المقدسہ کے تحت ایام فاطمیہ کی پہلی مجلسِ عزاء گزشتہ رات منعقد ہوئی؛ مجلسِ عزاء سے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا سید شمیم رضا رضوی نے خطاب کیا، مجلس میں علماء و زائرین نے بھرپور شرکت کی۔

خطیبِ مجلس نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی عظیم شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت ایسی عظمت اور انفرادیت کی حامل ہے کہ ان جیسی ہستی نہ ان سے پہلے دنیا میں آئی اور نہ بعد میں کوئی ان کے مقام کو پا سکا۔ آپ توحید کی عملی مجسمہ اور انسانیت کی تاریخ میں ایک منفرد اور بے مثل مقام رکھتی ہیں، ان کے وجود نے اخلاق، عبادت، معرفت اور عصمت کے وہ معیار قائم کیے جن کی مثال دنیائے بشریت میں نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا مرتبہ صرف خاندان رسالت تک محدود نہیں، بلکہ ان کا نور پوری کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا: "لولاک لما خلقت الافلاک"، پھر ارشاد ہوا: "لولا علی لما خلقتک" اور اس کے بعد فرمایا: "لولا فاطمہ لما خلقتکما"۔ ان تین جملوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے کائنات کو جس نور کی برکت سے پیدا فرمایا، اس کے مرکز میں حضرت فاطمہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کو اس انداز سے بیان کیا کہ انہیں "کوکب دری" یعنی درخشاں ستارے سے تشبیہ دی۔ قرآن کریم کی نورانی آیت "مثل نورہ کمشکواہ…" اسی کیفیت کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہ مثال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت فاطمہ کا نور محض جسمانی چمک نہیں، بلکہ الٰہی ہدایت، طہارت، عصمت اور روحانی روشنی کا وہ مرکز ہے جو مؤمنین کے دلوں کو منور کرتا ہے۔

مولانا سید شمیم رضا رضوی نے کہا کہ حدیث کساء وہ واقعہ ہے جس نے اہل بیت علیہم السلام کے مقام و مرتبے کو ہمیشہ کے لیے واضح کر دیا۔ روایت کے مطابق رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے چادر ڈالنے کے لیے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کو حکم دیا، حالانکہ وہ خود بھی ایسا کرسکتے تھے۔ یہ اہتمام محض ظاہری عمل نہ تھا، بلکہ اس کا حقیقی مقصد امت کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مقامِ ولایت اور مرکزیت سے آگاہ کرنا تھا۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے چادر اپنے دست مبارک سے پہنائی، جس کے نیچے بعد میں پنجتن اکٹھے ہوئے۔ جب پنجتن تحت کساء جمع ہو گئے تو رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے چادر کے کناروں کو پکڑ کر اعلان فرمایا: "اللہم ان ھؤلاء اہل بیتی" یعنی یہی میرے اہل بیت ہیں۔ اس اعلان نے واضح کر دیا کہ اہل بیت کا دائرہ صرف ان پانچ نورانی ہستیوں پر مشتمل ہے۔ اس موقع پر آسمانوں کے فرشتوں نے بھی اس نور کو محسوس کیا اور کہا: "یا رب و من تحت الکساء؟" اے اللہ، اس چادر کے نیچے کون ہیں؟ اس سے اہل بیت کی عظمت کا آسمانی اعتراف بھی سامنے آتا ہے۔
انہوں نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جبرئیل امین، جو فرشتوں کے سردار ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ کے پاس تعزیت کے لیے آتے تھے۔ روایات کے مطابق حضرت علی علیہ السلام، جبرئیل اور حضرت فاطمہ کے درمیان ہونے والے مکالمات کو تحریر کرتے تھے، جو بعد میں ’’مصحف فاطمہ‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ یہ منفرد اعزاز اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ حضرت فاطمہ نہ صرف نبوی خاندان کی مرکز ہیں، بلکہ آسمانی وحی کے فیوض کی مستقل سر چشمہ بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے پنجتن کے ساتھ چادر کے نیچے داخل ہونے کی اجازت طلب کرکے چھٹا فرد بننے کی خواہش ظاہر کی؛ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ فرشتے بھی ان پاک ہستیوں کی قربت کو شرف سمجھتے ہیں۔ جبرائیل کی یہ درخواست اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جو بھی اس نور سے جڑ جاتا ہے، وہ دوام پا لیتا ہے جس طرح قطرہ سمندر میں شامل ہو کر فنا نہیں ہوتا، بلکہ سمندر کی بقاء میں شامل ہو جاتا ہے۔










آپ کا تبصرہ