حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایامِ فاطمیہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے حجت الاسلام علی محمد مظفری نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات، رسالت اور امامت کے درمیان ایک نورانی کڑی ہے، اسی لیے اُن کی معرفت اور سیرت کو زندہ رکھنا امت کی فکری اور روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
حضرت زہرا (س) نفسِ رسول اللہ (ص)
انہوں نے سورۂ احزاب آیت 21 «لَقَدْ کانَ لَکُمْ فی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ…» کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری دنیا کے لیے بہترین نمونہ بنایا ہے۔
جبکہ آیت تطہیر (آیت 33 سورۂ احزاب) کے بارے میں شیعہ و سنی سب مفسرین متفق ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اُس کے مصادیق میں شامل ہیں۔
احمد بن حنبل اور ثعلبی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ آیۂ تطہیر «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً» رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، علیؑ، حسنؑ، حسینؑ اور فاطمہؑ کے بارے میں نازل ہوئی۔
’’فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی‘‘ اور ’’إِنَّمَا فَاطِمَةُ شِجْنَةٌ مِنِّی‘‘
حجت الاسلام مظفری نے سید بن طاووس کی کتاب ’’الطرائف‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِی»
یعنی فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے، جو اسے ناراض کرے وہ مجھے ناراض کرتا ہے۔
اسی طرح حاکم نیشابوری نے ’’المستدرک‘‘ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا: «إِنَّمَا فَاطِمَةُ شِجْنَةٌ مِنِّی یَقْبِضُنِی مَا یَقْبِضُهَا وَ یَبْسُطُنِی مَا یَبْسُطُهَا»
حضرت زہرا (س)، امیر المومنینؑ کے وجود کا رکن
شیخ صدوق نے ’’معانی الاخبار‘‘ میں جابر بن عبداللہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شہادت سے تین دن قبل امیرالمومنینؑ سے فرمایا:
«یَا أَبَا الرَّیْحَانَتَیْنِ أُوصِیکَ بِرَیْحَانَتَیَّ مِنَ الدُّنْیَا فَعَنْ قَلِیلٍ یَنْهَدُّ رُکْنَاک»
یعنی ’’اے علی! میں اپنی دو خوشبوؤں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، جلد ہی تمہارے دو ستون ٹوٹ جائیں گے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت علیؑ نے فرمایا کہ یہ وہ پہلا رکن تھا جو ٹوٹ گیا۔ پھر جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت ہوئی تو فرمایا: «هَذَا الرُّکْنُ الثَّانِی الَّذِی قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)»
آیتِ مباہلہ اور حضرت زہرا (س) کی منزلت
انہوں نے آیت مباہلہ «تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُم…» کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’أَنْفُسَنا‘‘ سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
چونکہ حضرت زہرا (س) رسولؐ کی بَضْعَة ہیں، جیسا کہ ابن عباس نے روایت کیا کہ پیغمبرؐ نے فرمایا:
«فاطِمَةُ… رُوحِی الَّتِی بَیْنَ جَنْبِی»
اور وہ امیرالمومنینؑ کے وجود کا رکن بھی ہیں، لہٰذا اُنہیں حقیقی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ’’نفس‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ «سَیِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مِنَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِین» ہیں۔
اقامۂ شعائرِ فاطمی: قرآن کی روشنی میں تین اہم آثار
۱۔ خدا کی محبت کا حصول
انہوں نے آیت 148 سورۂ نساء «لا یُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ…» پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ مظلوم کے حق میں بلند آواز احتجاج کو پسند کرتا ہے۔
سید بن طاووس نے حضرت زہرا (س) کی زیارت میں لکھا ہے:
«السَّلامُ عَلَیْکَ أَیَّتُهَا الْمَظْلُومَةُ الْمَمْنُوعَةُ حَقُّها»
شیعہ و سنی روایات میں ثابت ہے کہ فدک غصب کیا گیا، گھر پر حملہ ہوا اور بضعۂ رسولؐ مظلومانہ شہید ہوئیں۔
لہٰذا اُن کی مظلومیت کو یاد کرنا، قرآن کے مطابق ’’جہر بالسوء‘‘ کا مصداق ہے اور یہ عمل انسان کو خدا کی محبت کے قریب کرتا ہے۔
۲۔ اجرِ رسالت کی ادائیگی
سورۂ شوریٰ کی آیت 23 میں ارشاد ہے:
«قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی»
احمد بن حنبل نے نقل کیا کہ جب پوچھا گیا:
«مَنْ قَرَابَتُکَ الَّذِینَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُم؟»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«عَلِیٌّ وَ فَاطِمَةُ وَ ابْنَاهُمَا»
لہٰذا شعائر فاطمی کا احیاء دراصل اہل بیتؑ کی مودّت اور 23 سالہ رسالت کا شکرانہ ہے۔
۳۔ قیامت میں نعمت کے متعلق سوال کا جواب
سورۂ ابراہیم آیت 7 میں اللہ نے فرمایا:
«لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ…»
امام باقر علیہ السلام نے آیت «ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعیم» (التکاثر، 8) کی تفسیر میں فرمایا:
«نَحْنُ النَّعِیمُ الَّذِی تُسْأَلُونَ عَنْه»
امام صادقؑ نے ’’تفسیر فرات‘‘ میں سدیر کے سوال کے جواب میں فرمایا: «حُبُّ عَلِیٍّ وَ عِتْرَتِهِ یَسْأَلْهُمُ اللَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَیْفَ کَانَ شُکْرُکُمْ…»
یعنی ولایتِ علیؑ اور اہل بیتؑ کی محبت خدا کی عظیم نعمت ہے، جس کے شکر کی کلید عزاداری اور شعائر فاطمی کا احیاء ہے۔









آپ کا تبصرہ