پیر 3 نومبر 2025 - 11:44
رسولِ اکرم (ص) کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ حق و باطل کا معیار

حوزہ/ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ہی قیامت تک امت کے لیے ہدایت کے تیرہ نوری چراغ روشن کر دیے تھے جن میں سے ہدایت کا ایک روشن چراغ جناب فاطمہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصال کے بعد امت کو اہلبیت کی شکل میں ایک ایسا معیار عطا فرمایا جو ہمیشہ کے لیے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا قرار پایا۔ اس معیار حق کا مرکز سیدہ النساء العالمین، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں — جنہیں قرآن، سنت اور تاریخ میں صدق، طہارت، عصمت، اور ولایت کی علامت مانا گیا ہے۔

تحریر: شوکت بھارتی

حوزہ نیوز ایجنسی| رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ہی قیامت تک امت کے لیے ہدایت کے تیرہ نوری چراغ روشن کر دیے تھے جن میں سے ہدایت کا ایک روشن چراغ جناب فاطمہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصال کے بعد امت کو اہلبیت کی شکل میں ایک ایسا معیار عطا فرمایا جو ہمیشہ کے لیے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا قرار پایا۔ اس معیار حق کا مرکز سیدہ النساء العالمین، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں — جنہیں قرآن، سنت اور تاریخ میں صدق، طہارت، عصمت، اور ولایت کی علامت مانا گیا ہے۔

قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب (آیت 33) میں فرمایا:"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"ترجمہ: بے شک اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم اہلِ بیت سے ہر رجس (پلیدی) کو دور رکھے اور پاک و پاکیزہ رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔

یہ آیت اہلِ بیتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی عصمت اور طہارت کی دلیل ہے اور مفسرینِ کے مطابق اہلِ بیت سے مراد محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ اور دیگر اہلبیت ہیں۔

اسی لیے جنابِ زہراؑ نہ صرف رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی بیٹی ہیں بلکہ آیتِ تطہیر کے مصداق ہونے کی بنا پر باطل اُنکے قریب ہی نہیں جا سکتا اور وہ حق کی نشانی ہیں ۔

حدیثِ کساء اور مقامِ فاطمہؑ

حدیثِ کساء میں رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: "اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا"

یہی وہ اہلِ بیت ہیں جنہیں اللہ نے ہر رجس سے پاک قرار دیا۔

پس فاطمہؑ وہ ہستی ہیں جن کے ساتھ رہنا، ان کی راہ پر چلنا حق ہے، اور ان کے مقابل آنا باطل۔

حدیثِ "فاطمہ بضعۃ منی"

رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: "فاطمہ بضعۃ منی، من آذاہا فقد آذانی، ومن آذانی فقد آذی اللہ"(فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے، جس نے اسے اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی، اور جس نے مجھے اذیت دی، اس نے اللہ کو اذیت دی۔)(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

یہ فرمان واضح اعلان ہے کہ جنابِ فاطمہؑ کے ساتھ محبت، اطاعت اور وفاداری ہی حق ہے، اور ان کے ساتھ دشمنی یا اذیت براہِ راست رسول اور اللہ سے دشمنی کے مترادف ہے۔لہٰذا رسول کے بعد "حق و باطل" کی پہچان فاطمہؑ کے موقف سے طے ہوتی ہے۔

قرآن اور اذیتِ رسول کا انجام

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا: "إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا"(سورہ الاحزاب، آیت 57)

ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے، اور ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔

یہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ رسول کو اذیت دینے والے پر اللہ، فرشتوں اور مومنین کی لعنت ہے، اور ان کے اعمال حبط (ضائع) ہو جاتے ہیں۔

فاطمہؑ کو اذیت = رسول کو اذیت

چونکہ خود رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ: "جس نے فاطمہ کو اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی"لہٰذا قرآنی اصول کے مطابق، جس نے فاطمہؑ کو اذیت دی، اُس پر بھی اللہ، ملائکہ اور ایمان والوں کی لعنت ہے۔

ایسا شخص دراصل رسول کو اذیت دینے والا ہے، اور اس کے تمام اعمال حبط (باطل) ہو جاتے ہیں، خواہ وہ بظاہر کتنے ہی "نیک" کیوں نہ ہوں۔

کیونکہ قرآن کا قانون ہے کہ:> "وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ... نُصْلِهِ جَهَنَّمَ" (النساء 115)جو رسول کی مخالفت کرے، ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔

پس فاطمہؑ کی اذیت، رسول کی مخالفت ہے اور رسول کی مخالفت جہنم کی راہ۔

فاطمہؑ کی رضا = اللہ کی رضا

رسول ﷺ نے فرمایا:> "إنَّ اللَّهَ يَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَيَرْضَى لِرِضَاهَا"(اللہ، فاطمہ کی ناراضی سے ناراض ہوتا ہے اور فاطمہ کی خوشی سے راضی ہوتا ہے۔)(مستدرک حاکم، ج3، ص154)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ فاطمہؑ کی ناراضی، دراصل اللہ کی ناراضی ہے۔

لہٰذا جو فاطمہؑ سے ناراض ہے یا اُنہیں اذیت دیتا ہے، اُس پر اللہ کی لعنت اور اعمال کا بطلان (حبط) لازم ہے۔

فاطمہؑ کا خطبۂ فدک — حق کا اعلان

رسول کے بعد جب خلافت و فدک کا مسئلہ اٹھا، تو سیدہؑ نے مسجدِ نبوی میں وہ تاریخی خطبۂ فدک دیا جو امت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا تھا۔

انہوں نے قرآن کی آیات سے استدلال کر کے ثابت کیا کہ: قرآن کا کھلا اعلان ہے کی انبیاء کی وراثت ہوتی ہے اور غاصب حاکم کی حدیث قرآن سے ٹکرانے والی جھوٹی حدیث ہے۔اُنہونے قرآن سے ہی ثابت کر دیا حاکم وقت صرف صرف اہلبیت کا ہی مخالف نہیں ہے بلکہ قرآن کا بھی مخالف ہے اُنہونے قرآن سے ثابت کر دیا کی قرآن علم،شجاعت اور تقوے میں افضل کو خلیفہ کہتا ہے اور یہی اللّٰہ کا فیصلہ ہے اور یہی حق ہے اس لیے خلافت حق علیؑ کا ہے،

اور میں وہی کہہ رہی ہوں جو ج قرآن کہتا ہے۔"

یہ خطبہ دراصل اعلانِ حق تھا — کہ جو فاطمہؑ کے موقف کے ساتھ ہے، وہ حق پر ہے؛ جو ان کے مخالف ہے، وہ باطل پر۔

نتیجہ

جنابِ فاطمہ زہراؑ کا کردار رسولِ اکرم ﷺ کے بعد امت کے لیے آئینۂ حق و باطل ہے۔

ان کے حق میں رہنا ایمان ہے، ان کے مقابل ہونا کفر و نفاق۔

انہوں نے ظاہری طاقت کے بجائے اخلاق، علم، اور صبر سے باطل کو بے نقاب کیا، اور تا قیامت حق کی بنیاد رکھ دی۔

اسی لیے ہناتا عقیدہ یہ ہے کہ "بعدِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم، فاطمہؑ ہی معیارِ حق و باطل ہیں"، کیونکہ جو اُنہیں اذیت دے، وہ ملعون ہے؛ جس سے وہ راضی ہوں، اللہ اس سے راضی ہے اور جن سے وہ ناراض ہوں، اللہ ان سے ناراض ہے۔

خلاصۂ کلام

فاطمہؑ کی رضا = اللہ کی رضا

فاطمہؑ کی ناراضی = رسول کی ناراضی

فاطمہؑ کو اذیت دینا = اللہ و رسول کو اذیت دینا

ایسے لوگوں پر قرآن کے مطابق لعنت اور اعمال کی حبط

فاطمہؑ کی ولایت = ایمان

فاطمہؑ کا انکار = ضلالت

فاطمہؑ کی راہ = حق

فاطمہؑ کے مخالف = باطل

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha