حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صوبہ خراسان جنوبی کے ضلع خوسف میں ایک چھوٹے سے گھر میں فاطمہ سنگکی نامی خاتون اپنی زندگی کے ہر لمحے کو خدمت، قربانی اور ایثار کا پیکر بنا چکی ہیں۔ یہ ۳۸ سالہ ماں نہ صرف اپنے تین نابینا بچوں بلکہ ایک ایسے شوہر کی بھی دیکھ بھال کرتی ہیں جن کی بینائی صرف دس فیصد باقی رہ گئی ہے۔
فاطمہ کے گھر میں زندگی صبح چار بجے شروع ہوتی ہے۔ وہ نماز کے بعد بچوں کو جگاتی ہیں، انہیں ناشتہ دیتی ہیں، ان کے کپڑے تیار کرتی ہیں اور ہر لمحہ محتاط رہتی ہیں کہ کہیں ان کے نابینا بچوں کو چوٹ نہ لگ جائے۔ ان کا شوہر جو بلدیہ میں کام کرتا ہے، دن بھر محنت مزدوری کرتا ہے جبکہ فاطمہ دن بھر گھر کے کام اور بیمار بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا ابوالفضل نابینا ہونے کے ساتھ اوٹیزم کا شکار بھی ہے، جب کہ دس سالہ سمانہ اور آٹھ سالہ حسین نابینا اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
فاطمہ سنگکی کہتی ہیں: “میرے بچے نابینا ہیں، اس لیے ان کے کپڑے بار بار گندے ہوجاتے ہیں۔ میں روزانہ انہیں دھوتی ہوں، اسی مسلسل محنت نے مجھے رماتیسم کا مریض بنا دیا ہے، مگر میں ہار نہیں مانی۔”
یہ ماں نہ صرف پرستار ہے بلکہ ایک معلم بھی بن چکی ہے۔ پانچ سال قبل جب اسے احساس ہوا کہ اس کے بچے قرآن سے خاص محبت رکھتے ہیں، اس نے انہیں قرآن سکھانے کا عزم کیا۔ چونکہ علاقے میں نابینا بچوں کے لیے مناسب سہولتیں میسر نہ تھیں، اس لیے فاطمہ نے خود قرآن سیکھنا شروع کیا تاکہ اپنے بچوں کو صحیح تلفظ اور معنوں کے ساتھ تعلیم دے سکے۔ اب دو سال سے وہ اپنے بچوں کو خود قرآن پڑھا رہی ہیں اور حسین و سمانہ قرآنِ کریم کا تیسواں پارہ حفظ بھی کر چکے ہیں۔
ہر شام نمازِ مغرب کے بعد فاطمہ کے گھر میں “ساعتِ قرآن” شروع ہوتی ہے۔ وہ محدود وسائل کے باوجود موبائل فون کی مدد سے بچوں کو قرآن پڑھاتی ہیں۔ ان کے بقول، یہی لمحے ان کے گھر کی سب سے حسین ہوتا ہیں۔
فاطمہ سنگکی کہتی ہیں: “میری بیٹی سمانہ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ زیارتِ کربلا کو جائے، حضرت ابوالفضل العباسؑ کے حرم میں نذر کرے کہ اگر بینائی واپس مل گئی تو سب سے پہلے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائے گی تاکہ میری بیماری کا علاج کرائے۔”
اگرچہ یہ خاندان ادارہ بہبود کی مدد سے ایک چھوٹے سے گھر میں رہائش پذیر ہے، لیکن سہولتوں کی کمی، تنگ جگہ اور مالی مسائل نے ان کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس کے باوجود فاطمہ امید کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ ان کے نابینا بچے قرآنِ مجید کے حافظ بنیں، تعلیم مکمل کریں اور اپنی محرومی کو اپنی قوت میں بدل دیں۔
یہی فاطمہ کی زندگی کا فلسفہ ہے — خدمت، استقامت اور ایمان۔









آپ کا تبصرہ