۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
ماں

حوزہ/ ہر ماں باپ اپنی اولاد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور اس کی خوشی کی خاطر اپنی خوشیوں اور آرام و سکون کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ اولاد کو ماں باپ کی قربانی کی صحیح پہچان اسی وقت ہوتی ہے جب وہ خود اُن کے درجہ پر پہنچتی ہے۔

تحریر: سائرہ نقوی

چند ماہ پہلے میں نے فیسبک پر ایک اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا:

"گھر میں نظر آنے والا سب سے خوب صورت چہرہ ماں کا ہے۔"

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ہر ماہ ایک پاکیزہ اور حسین و جمیل عورت ہوتی ہے خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہو۔ ماں، ماں ہے چاہے نبی کی ہو یا کسی عام انسان کی۔ وہ اپنے بچوں کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار رہتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں چند انبیاء علیہم السلام کی ماؤں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے بچوں کے لئے جرات و بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔ بی بی ہاجرہ (س) نے مکہ کے صحرا کی تپتی دھوپ میں اپنے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے لئے جو جدوجہد کی، خدا تعالی نے اسے ایک مقدس رکن میں تبدیل کر دیا۔ بی بی یوکابد (س) نے خدا کے حکم پر موسی علیہ السلام کو دریا کی موجوں کے سپرد کر دیا۔ یقینا یہ کام ایک ماں کے لئے آسان نہ تھا لیکن بی بی یوکابد (س) نے اپنے بچے کے تحفظ کی خاطر خود کو آزمائش میں ڈالا۔ اسی طرح بی بی مریم (س) نے امرِ ربی پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے عیسی علیہ السلام کی بن باپ کی پیدائش کو قبول کیا اور حوصلہ مندی کے ساتھ لوگوں کی نگاہوں کا سامنا کیا۔ درود ہو ان عظیم ترین ماؤں پر۔ گو کہ میں نے اِن ہستیوں کو کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن ان کا عکس مجھے اپنی ماں کے معصوم چہرے میں نظر آتا ہے۔

آدھی سے زیادہ عمر گزر گئی لیکن آج بھی گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ امی کہاں ہیں۔ وہ میری منتظر ہیں اور میں ان کا چہرہ دیکھوں تو دل کو قرار آئے۔ بلاشبہ یہ خوبصورت ترین احساس ہے جس کی خوبصورتی کو بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ہر ماں باپ اپنی اولاد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور اس کی خوشی کی خاطر اپنی خوشیوں اور آرام و سکون کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ اولاد کو ماں باپ کی قربانی کی صحیح پہچان اسی وقت ہوتی ہے جب وہ خود اُن کے درجہ پر پہنچتی ہے۔ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے والدین کے مقام و مرتبہ کی خصوصی وضاحت کی ہے۔ اُن کا احترام واجب قرار دیا اور ان کے حق کو حقوق العباد میں سب سے پہلے رکھا۔ اسی مَد میں ماں کے حق پر نظر ڈالی جائے تو اُس کے حق کو والدین کے حقوق میں تین دفعہ برتری دی گئی ہے۔ شاید اس لئے کہ ماں تقریبا نو ماہ تک تکلیف اٹھانے کے بعد اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ بچے کی پیدائش جانکنی کا عالَم ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد ان گنت راتوں میں جاگ کر اپنے بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اسے سب سے زیادہ اپنے بچے کی فکر ہوتی ہے اور وہ یہ فکر قبر تک اپنے ساتھ لے کر جاتی ہے۔

آج میں جو کچھ ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ میرے اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے پیچھے میری امی کا ہاتھ ہے۔ وہ اَن پڑھ ہیں لیکن اپنی سب بیٹیوں کو پڑھا لکھا کر اَن پڑھ رہنے سے محفوظ رکھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کی یونیورسٹی ایڈمیشن کے وقت وہ میرے ساتھ گئی تھیں۔ اگرچہ میری ماں نے کسی مکتب یا دانشگاہ میں قدم نہیں رکھا لیکن وہ میری "پروفیسر" ہیں اور انھوں نے "محبت" میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ وہ مجھ پر دل و جان نچھاور کرتی ہیں۔ میرا سر دباتی ہیں۔ میرے کپڑے دھوتی ہیں۔ مجھے ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے کو ملتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ احساس کرتی ہیں کہ میری بیٹی جاب کر کے تھک جاتی ہے اور اسے آرام کی ضرورت ہے۔ امی کی تربیت نے مجھے ایک محنتی، خود انحصار اور ایمان دار انسان بنایا۔ وہ حقیقت میں ایک مومنہ ہیں جس نے ایک بے لوث اور پاکیزہ زندگی گزاری۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہوتیں تو یقینا کسی یونیورسٹی میں پروفیسر یا کالج کی پرنسپل ہوتیں۔ آج ماؤں کا عالمی دن ہے تو سوچا کہ امی پر کچھ لکھوں۔ امی سے میں نے عہد لیا ہوا ہے کہ ہم جنت میں بھی ساتھ رہیں گے اور اس عہد کی تجدید ہم وقتا فوقتا کرتے رہتے ہیں۔ خدا ہم سب کی ماؤں کو سلامت رکھے۔ آمین!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .