۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
مولانا سید تہذیب الحسن 

حوزہ/ ماں باپ وہ عظیم نعمت ہے جو اپنے بچوں سے کسی بھی لالچ کی بنیاد پر الفت و محبت نہیں کرتے۔ بلکہ اولاد ہونے کی وجہ کر اپنے بچوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ بچہ ظالم ہی کیوں نہ ہو جائے اپنے ماں باپ کے لیے۔ مگر ماں باپ اپنے بچوں کے حق میں کبھی بددعا نہیں کرتے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رانچی/ انسان کی زندگی میں بہت سے موڑ آتے ہیں، بہت سے دوست اور ساتھی بھی ملتے ہیں۔ مگر آپ سے جو بھی الفت کرتا ہے جو بھی محبت کرتا ہے وہ کسی نہ کسی لالچ کی بنیاد پر ہی کرتا ہے۔ مگر ایک ماں باپ وہ عظیم نعمت ہے جو اپنے بچوں سے کسی بھی لالچ کی بنیاد پر الفت و محبت نہیں کرتے۔ بلکہ اولاد ہونے کی وجہ کر اپنے بچوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ بچہ ظالم ہی کیوں نہ ہو جائے اپنے ماں باپ کے لیے۔ مگر ماں باپ اپنے بچوں کے حق میں کبھی بددعا نہیں کرتے۔

دینداری کے بغیر دین ادھورا: مولانا سید تہذیب الحسن 

مذکورہ باتیں آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ جھارکھنڈ کے چیئرمین نیز جھارکھنڈ راجیہ حج سمیت کہ سابق رکن نیز الایمان چیریٹیبل ٹرسٹ نجفی ہاؤس ممبئی کے رکن و مسجد جعفریہ رانچی کے امام و خطیب حضرت مولانا حاجی سید تہذیب الحسن رضوی نے کہی۔ وہ جمعہ کو مسجد جعفریہ میں اپنی والدہ حسنینی بی بی کی مجلس برسی سے خطاب کر رہے تھے۔

دینداری کے بغیر دین ادھورا: مولانا سید تہذیب الحسن 

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں اپنے اندر دین کی جب ٹھنڈک محسوس کرو، تو اپنے والدین کو دعا دو۔ کہ انہوں نے تمہیں پال کر دیندار بنایا۔ دینداری کے بغیر دین ادھورا ہے۔ مولانا نے کہا کہ اللہ صرف سجدہ کرنے والوں کو ہی دوست نہیں رکھتا بلکہ انہیں بھی دوست رکھتا ہے جنہوں نے اپنے والدین کو راضی رکھا ہے۔ والدین کی رضا میں رضائے پروردگار ہے۔ آؤ ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے والدین کے حقوق کو کسی بھی حالت میں پامال نہیں ہونے دیں گے۔

دینداری کے بغیر دین ادھورا: مولانا سید تہذیب الحسن 

کلام پیش کرنے والوں میں امیر گوپال پوری، قاسم رانچوی، باقر رضا پرنیاوی نے مخصوص انداز میں کلام پڑھا۔ جب کہ سوز خانی کے فرائض انجام سید عطا امام رضوی نے دی۔ اس موقع پر سماجی کارکن سمیع آزاد، سید نہال حسین سریاوی، ڈاکٹر مبارک عباس، سید جاوید حیدر، اقبال حسین فاطمی، حاجی یونس رضا، حاجی اقبال حسین، سید اشرف حسین، یاور حسین، ہاشم علی، صحافی عادل رشید سمیت کافی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .