حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ ممبئی کے امام جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے شیعہ خوجہ جامع مسجد ممبئی میں جمعہ کے خطبے میں کہا کہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا و آخرت میں ہماری بہتری، ہماری کامیابی کے لئے جو باتیں بیان فرمائی ہیں اگر واقعا ہم اور پوری کائنات اس پر عمل کرنے لگیں تو یہ کائنات امن و امان کا گہوارہ بن جائے، جنگ و جدال، قتل و کشتار سے دنیا محفوظ ہو جائے۔ لیکن شیطان نے غلبہ کیا اور نفس امارہ کی حکومت ہے تو زمین پر حکومت کی خاطر ایک انسان دوسرے انسان کا خون بہا رہا ہے اور یہ اندازہ نہیں ہے کہ جس زمین پر ہم خون بہا رہے ہیں ہمیں اسی زمین کے اندر جانا ہے اور زمین کے اندر جائیں گے تو جو کچھ ہم نے زمین کے اوپر کیا ہے ان سب کا چن چن کے بدلہ لیا جائے گا اور اس وقت ہماری کوئی بھی مدد اور فریاد سننے والا نہیں ہوگا۔
امام جمعہ ممبئی نے کہا: شیطان نے روز اول سے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اللہ کے مخلص بندوں پر میرا کوئی قابو نہیں ہوگا، میرا قابو ان بندوں پر ہوگا جو اللہ کے مخلص بندے نہیں ہوں گے۔ اللہ کے مخلص بندے یعنی وہ بنڈے جن کے وجود میں خدا کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے وہاں شیطان کا گذر نہیں ہے۔ قرآن خود کہتا ہے کہ شیطان ان لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو اس کی ولایت کو قبول کر لیں یعنی شیطان کو ہم موقع دیتے ہیں اپنے پر مسلط ہونے کا اگر ہم موقع نہ دیں اور ہم اس منزل میں خدا سے پناہ مانگیں اور اگر ایسا موقع آ جائے کہ ہمیں یہ احساس ہو کہ ہمارا نفس امارہ اور ہماری خواہشات اور شیطان مل کر ہم پر غالب آنا چاہ رہے ہیں تو اس وقت ہماری ذمہ داری اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہوئے خدا، رسول اور اس کے اولیاء علیہم السلام سے توسل کریں۔ ان کو پکاریں۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے زیارت مومن کے سلسلہ میں حدیث کو بیان کرتے ہوئے کہا: آج ہمارے یہاں جو موبائل آ گیا ہے، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کم ہو گیا ہے، ملاقاتوں کا سلسلہ محدود ہو گیا ہے جس کے سبب زندگی کی برکتیں بھی کم ہو گئی ہیں۔ جب ہمارے یہاں دوست آتے تھے، احباب آتے تھے، عزیز آتے تھے، مہمان آتے تھے تو باتوں کے ساتھ ساتھ برکتیں بھی لاتے تھے، اچھائی بھی لاتے تھے، بھلائی بھی لاتے تھے، برائیاں لے جاتے تھے، اچھائیاں چھوڑ کے جاتے تھے، گھروں سے نحوستوں کو لے کے جاتے تھے، برکتوں کو چھوڑ جاتے تھے۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی حدیث "خدا نے گناہوں پر عذاب کا وعدہ نہ کیا ہوتا تب بھی خدا کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا تقاضہ یہ تھا کہ انسان گناہ نہ کرے۔" بیان کرتے ہوئے کہا: وہ بچہ جو ماں باپ کے ڈر سے، ان کے خوف سے ٹھیک ٹھاک رہتا ہے وہ بچہ زیادہ اچھا ہے یا وہ بچہ جو ماں باپ کی خدمتیں دیکھ کے ان کی نافرمانی نہیں کرتا وہ بچہ اچھا ہے؟ وہ بچہ اچھا ہے جس کو ماں باپ کا خوف سیدھے راستے پر رکھے ہے یا وہ بچہ اچھا ہے جس کو ماں باپ کی محبتیں اور شفقتیں سیدھے راستے پر رکھے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے ماں باپ کا خوف نہیں ہے لیکن میرے ماں باپ نے میرے لئے اتنی محنت کی ہے، اتنی مشقت کی ہے کہ میں زندگی بھر ان کی خدمت کروں تب بھی ان کا حق ادا نہیں کر سکتا، ماں باپ کی محبتیں مجھے یہ اجازت نہیں دیتی کہ میں اپنے ماں باپ کی نافرمانی کروں تو کون سا بچہ اچھا ہے۔ اسی طرح وہ مومن جو عذاب کے خوف سے گناہ نہیں کرتا اور دوسرا وہ مومن جو نعمت الہی کے شکریہ کے طور پر گناہوں سے بچتا ہے کہ پروردگار صبح سے آنکھ کھولتا ہوں تو چاروں طرف تیری نعمتیں ہی دیکھتا ہوں، تیرا رحم و کرم ہی مشاہدہ کرتا ہوں۔