تحریر: حجۃ الاسلام مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی
حوزہ نیوز ایجنسی। دل کو یقین آئے بھی تو کیسے کہ کل تک وہ انسان ہماری بزم کی زینت تھا اور آج بزم ملائکہ میں پہنچ گیا!۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
شاعر آل طه و یاسین جناب رضا سرسوی صاحب وہ انمول گوہر تھے جن کے گزر جانے سے مخزن شاعری میں ایک ایسا خلع پیدا ہوگیا ہے جس کو کوئی پُر نہیں کرسکتا۔
کوئی انسان دنیا سے جاتا ہے تو اس کے حلقۂ احباب میں آہ و بکا کی آوازیں گونجتی ہیں کیونکہ ایک عزیز بچھڑ گیا لیکن رضا سرسوی کا دائرۂ احباب اس قدر وسیع و عریض تھا کہ اپنے تو اپنے پرائے بھی ان کی موت پر گریہ کناں نظر آرہے ہیں.
جناب رضا سرسوی حاجی، زائر، عزادار اور ایک سچے عاشق اہلبیت تھے جس کا اظہار ان کے کلام پڑھنے میں ظاہر ہوتا تھا. اس درجہ مولائی تھے کہ جب بھی کسی عالم دین سے ملاقات کرتے تھے تو موصوف کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔
اگر شاعری کے میدان میں دیکھا جائے تو میدان شاعری کے ایسے شہسوار تھے کہ اساتذہ کے بھی استاد قرار پائے. بعض کلام تو ایسے لکھ ڈالے کہ جن کی نظیر ملنا مشکل ہے انہی کلاموں میں سے موصوف کا ایک کلام ماں کے عنوان سے زبان زد خاص و عام ہے۔
محترم رضا سرسوی صاحب کا وہ کلام جو انہوں نے ماں کے عنوان سے تحریر کیا، آج تک تاریخ شاعری میں اس کی نظیر نہ مل سکی. اس موضوع پر بہت سے شعراء نے قلم اٹھایا لیکن کسی کا کلام رضا سرسوی کے کلام کی آفاقیت تک نہیں پہنچ پایا۔
گویا موصوف نے یہ کلام لکھ کر قلم توڑ دیا کہ ماں کی فضیلت میں اس سے اچھا کلام کوئی نہیں ہوسکتا۔
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں
مرتے دم بچہ اگر آ پائے نہ پردیس سے
اپنی دونوں پُتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
غرض اس کلام کا ہر شعر، ہر شعر کا ہر مصرعہ اور ہر مصرعہ کا ہر ہر لفظ ایسا موزون نظر آتا ہے کہ اگر کسی لفظ کی جگہ کوئی اس کا ہم وزن اور مترادف بھی لاکر رکھ دیا جائے تب بھی وہ مفہوم ادا نہیں کرسکتا جو ان کے کلام کے الفاظ ادا کر رہے ہیں۔
جی ہاں! ایسے معیار کا شاعر کبھی کبھی دنیا میں آتا ہے اور خدا نے اس نعمت سے ہمیں نوازا تھا وہ ایک مدت تک ہمارے درمیان رہی اور آج اس نعمت کو ہم سے واپس لے لیا گیا۔
انا لله و انا الیه راجعون رضا بقضائه و تسلیما لامرہ
محترم رضا سرسوی کا داغ ہماری قوم کے لئے ایک ناسور کی مانند ہے جو زندگی بھر رِس رِس کر ستاتا رہے گا لیکن یہی سوچ کر دل کو اطمئنان دلا رہے ہیں کہ کل تک موصوف مولا علی(ع) کے فضائل ہمیں سنا رہے تھے اور آج بزم علی(ع) میں جاکر براہ راست مولا کے سامنے نذرانۂ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
علی والوں کا مرنا بھی کوئی مرنے میں مرنا ہے
گئے اپنے مکاں سے اور علی کے گھر میں جا بیٹھے
آخر کلام میں مرحوم رضا سرسوی کے لئے بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار عالم ان کی چھوٹی بڑی خطاؤں سے در گزر فرما۔