۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
ماں

حوزہ/ ماں کے پیروں تلے خداوندے عالم نے جنت رکھی ہے تو اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماں کا کیا مقام ہے۔ ارے ماں تو وہ ہستی ہے جو جب وہ اپنے بچے کو پیدا کرتی ہے تو موت کے قریب تر چلی جاتی ہے۔ مگر وہ موت کے خوف سے بے پرواہ اپنے بچے کے لئے جان بھی قربان کرنے سے نہیں گھبراتی ہے۔

تحریر: علی رضا جعفری- قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسی |ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے،مگر اپنے اندر کل کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں خداوندے عالم کی طرف سے دیا ہوا بہت عظیم الشان اور خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو خالص محبت کی چاشنی سے مل کر بنا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو خود بھوکا رہ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔ وہ خود تو گیلے بستر پر سونا منظور کر لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کو گیلے بستر پر لٹا کر بے سکون کرنا منظور نہیں کرتی ہے۔ ماں تپتی دھوپ میں باد نسیم کے جھونکوں کی مانند ہے۔جس گھر میں ماں جیسی ہستی موجود ہے۔ وہ گھر کسی جنت سے کم نہیں ہے۔

ماں وہ ہستی ہے جس کی دعاؤں سے انسان دنیا میں بھی کامیاب ہو جاتاہے تو اس کی خدمت کرنے سے آخرت بھی سنور جاتی ہے۔

ماں کے پیروں تلے خداوندے عالم نے جنت رکھی ہے تو اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماں کا کیا مقام ہے۔ ارے ماں تو وہ ہستی ہے جو جب وہ اپنے بچے کو پیدا کرتی ہے تو موت کے قریب تر چلی جاتی ہے۔ مگر وہ موت کے خوف سے بے پرواہ اپنے بچے کے لئے جان بھی قربان کرنے سے نہیں گھبراتی ہے۔

ماں لفظ ہی بہت خوبصورت ہے جو محبت، فروزاں، زعم سے مل کر بنا ہے۔ ماں خود قانع میں رہ لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کے لئے دنیا کی تمام آسائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ ماں کی زبان پر اپنے بچوں کے لئے ہمیشہ دعائی کلمات ہوتے ہیں۔ انسان فقیر سے بادشاہت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز کا پیمانہ موجود ہے۔ جیسے سورج ، چاند ، دن رات ، زمین آسمان کے درمیان ہر چیز کا پیمانہ موجود ہے۔ مگر ماں کی محبت کا اپنی اولاد کے لیے کوئی پیمانہ آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ ماں کی محبت اپنی اولاد کے لیے بے حساب ہوتی ہے اور شاید ہی کوئی آلہ آنے والے وقتوں میں ایجاد ہو جو ماں کی محبت کا حساب لگا سکے۔

ماں کا دل اس دلدل کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں وہ اپنی اولاد کے تمام راز ڈال دیتی ہے۔ جہاں لفظ ماں آیا جان لو کہ ادب کا مقام آیا۔ جب انسان سے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا تو ماں کی آغوش میں آکر اپنے دکھوں اور پریشانیوں کے باوجود راحت محسوس کرتاہے جو کہ اس کو بادشاہت کے تخت پر بھی میسر نہیں ہوگی۔

ماں کے احسانات انعام واکرام اس قدر ہوتے ہیں کہ اگر اولاد اپنی ساری زندگی ان کا شکر ادا کرے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ روایت ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا ” یارسول اللہ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا ” تیری ماں” پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں” تین بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد ہوا : تیرا باپ۔

ماں اللہ تعالیٰ کی نصیحت عظیم، عقل وشعور کی پہلی درسگاہ ، خلوص کا سر چشمہ اور ایسا باغ جہاں نہر وقت اولاد کے لیے پھولوں کی پتیوں کی طرح نرمی ہی نرمی ہے۔ ماں جس کی پیشانی پر نور، جس کی آنکھوں میں ٹھنڈک، جس کی باتوں میں محبت، جس کے دل میں رحمت، جس کے ہاتھوں میں شفقت ، جس کے پیروں میں جنت، جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا ہے۔

ماں کی عزت وتکریم کہ اس آیت سے لگا سکتے ہیں: فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَ لا تَنْهَرْهُما وَ قُلْ لَهُما قَوْلاً كَرِيما، (سورة الإسراء (17):آيت 23) ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا، اس کے سخت اور تکلیف والے رویے پر بھی اولاد کو لفظ اف بھی کہنا ان کے مرتبے کے خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ بداخلاقی ، گستاخی اور بدسلوکی سے پیش نہ آیا جائے۔

قرآن کریم میں خدا نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ وہیں والدین کے لئے فرماتا ہے: وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْسانا، تمھارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔قرآن کریم کا یہ حکم ہر مسلمان کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں ماں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم کیا گیا کہ ماں کے اولاد پر کیا حقوق ہیں تو آپ نے فرمایا: ان کا نام نہ لو ، ان کے آگے نہ چلو، ان کے آگے نہ بیٹھو ، ان کے سامنے بدکلامی نہ کرو۔

ماں کی طرف ایک محبت بھری نگاہ سے ہی دیکھنا ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ ماں کی نافرمانی کرنے والے کو سزا دنیا میں بھی دی جائیگی اور آخرت میں بھی۔

خداوندے عالم سے دعا ہوں کہ وہ تمام ماؤں کو سلامت رکھے تاکہ کوئی بھی ماں کی آغوش، اس کی نصیحتوں، اس کی دعاؤں، اس کی بے لوث محبت سے محروم نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اولاد کو بھی خداوندے عالم اپنی اپنی ماؤں کی عزت وتکریم اور خدمت کرنے کا موقع عطا فرمائے کہ اس کی خدمت کے وسیلے میں حج اکبر کی سعادت حاصل کرنے کے اہل ٹھہریں۔

بے شک میری تمام تر کامیابیاں میری والدہ کی تربیت اور ان کی دعاؤں کی مرہونِ منت ہے۔ خداوندے عالم میری ماں کو لمبی عمر عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے۔ ماں نے کیا ہوا ہے سپردِ خدا مجھے

ماں کا مقام و مرتبہ، ماں تپتی دھوپ میں باد نسیم کے جھونکوں کی مانند ہے

ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے،مگر اپنے اندر کل کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں خداوندے عالم کی طرف سے دیا ہوا بہت عظیم الشان اور خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو خالص محبت کی چاشنی سے مل کر بنا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو خود بھوکا رہ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔ وہ خود تو گیلے بستر پر سونا منظور کر لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کو گیلے بستر پر لٹا کر بے سکون کرنا منظور نہیں کرتی ہے۔ ماں تپتی دھوپ میں باد نسیم کے جھونکوں کی مانند ہے۔جس گھر میں ماں جیسی ہستی موجود ہے۔ وہ گھر کسی جنت سے کم نہیں ہے۔

ماں وہ ہستی ہے جس کی دعاؤں سے انسان دنیا میں بھی کامیاب ہو جاتاہے تو اس کی خدمت کرنے سے آخرت بھی سنور جاتی ہے۔

ماں کے پیروں تلے خداوندے عالم نے جنت رکھی ہے تو اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماں کا کیا مقام ہے۔ ارے ماں تو وہ ہستی ہے جو جب وہ اپنے بچے کو پیدا کرتی ہے تو موت کے قریب تر چلی جاتی ہے۔ مگر وہ موت کے خوف سے بے پرواہ اپنے بچے کے لئے جان بھی قربان کرنے سے نہیں گھبراتی ہے۔

ماں لفظ ہی بہت خوبصورت ہے جو محبت، فروزاں، زعم سے مل کر بنا ہے۔ ماں خود قانع میں رہ لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کے لئے دنیا کی تمام آسائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ ماں کی زبان پر اپنے بچوں کے لئے ہمیشہ دعائی کلمات ہوتے ہیں۔ انسان فقیر سے بادشاہت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز کا پیمانہ موجود ہے۔ جیسے سورج ، چاند ، دن رات ، زمین آسمان کے درمیان ہر چیز کا پیمانہ موجود ہے۔ مگر ماں کی محبت کا اپنی اولاد کے لیے کوئی پیمانہ آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ ماں کی محبت اپنی اولاد کے لیے بے حساب ہوتی ہے اور شاید ہی کوئی آلہ آنے والے وقتوں میں ایجاد ہو جو ماں کی محبت کا حساب لگا سکے۔

ماں کا دل اس دلدل کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں وہ اپنی اولاد کے تمام راز ڈال دیتی ہے۔ جہاں لفظ ماں آیا جان لو کہ ادب کا مقام آیا۔ جب انسان سے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا تو ماں کی آغوش میں آکر اپنے دکھوں اور پریشانیوں کے باوجود راحت محسوس کرتاہے جو کہ اس کو بادشاہت کے تخت پر بھی میسر نہیں ہوگی۔

ماں کے احسانات انعام واکرام اس قدر ہوتے ہیں کہ اگر اولاد اپنی ساری زندگی ان کا شکر ادا کرے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ روایت ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا ” یارسول اللہ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا ” تیری ماں” پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں” تین بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد ہوا : تیرا باپ۔

ماں اللہ تعالیٰ کی نصیحت عظیم، عقل وشعور کی پہلی درسگاہ ، خلوص کا سر چشمہ اور ایسا باغ جہاں نہر وقت اولاد کے لیے پھولوں کی پتیوں کی طرح نرمی ہی نرمی ہے۔ ماں جس کی پیشانی پر نور، جس کی آنکھوں میں ٹھنڈک، جس کی باتوں میں محبت، جس کے دل میں رحمت، جس کے ہاتھوں میں شفقت ، جس کے پیروں میں جنت، جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا ہے۔

ماں کی عزت وتکریم کہ اس آیت سے لگا سکتے ہیں: فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَ لا تَنْهَرْهُما وَ قُلْ لَهُما قَوْلاً كَرِيما، (سورة الإسراء (17):آيت 23) ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا، اس کے سخت اور تکلیف والے رویے پر بھی اولاد کو لفظ اف بھی کہنا ان کے مرتبے کے خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ بداخلاقی ، گستاخی اور بدسلوکی سے پیش نہ آیا جائے۔

قرآن کریم میں خدا نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ وہیں والدین کے لئے فرماتا ہے: وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْسانا، تمھارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔قرآن کریم کا یہ حکم ہر مسلمان کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں ماں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم کیا گیا کہ ماں کے اولاد پر کیا حقوق ہیں تو آپ نے فرمایا: ان کا نام نہ لو ، ان کے آگے نہ چلو، ان کے آگے نہ بیٹھو ، ان کے سامنے بدکلامی نہ کرو۔

ماں کی طرف ایک محبت بھری نگاہ سے ہی دیکھنا ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ ماں کی نافرمانی کرنے والے کو سزا دنیا میں بھی دی جائیگی اور آخرت میں بھی۔

خداوندے عالم سے دعا ہوں کہ وہ تمام ماؤں کو سلامت رکھے تاکہ کوئی بھی ماں کی آغوش، اس کی نصیحتوں، اس کی دعاؤں، اس کی بے لوث محبت سے محروم نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اولاد کو بھی خداوندے عالم اپنی اپنی ماؤں کی عزت وتکریم اور خدمت کرنے کا موقع عطا فرمائے کہ اس کی خدمت کے وسیلے میں حج اکبر کی سعادت حاصل کرنے کے اہل ٹھہریں۔

بے شک میری تمام تر کامیابیاں میری والدہ کی تربیت اور ان کی دعاؤں کی مرہونِ منت ہے۔ خداوندے عالم میری ماں کو لمبی عمر عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے۔ ماں نے کیا ہوا ہے سپردِ خدا مجھے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .