تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ تبارک و تعالی کےصالح عبد، ولی و حجت امیر المومنین علیہ السلام جنکی پاکیزہ حیات کا لمحہ لمحہ اس کی خالص بندگی میں گذرا، جیسا کہ خود آپ نے فرمایا "ائے پروردگار میری بندگی نہ تیری جنت کی لالچ میں ہے اور نہ جہنم کے خوف سے ہےبلکہ تجھے لائق عبادت سمجھتاہوں تو تیری عبادت کرتاہوں"۔ کمال بندگی یہ ہے کہ کبھی اپنے لئے کچھ نہ مانگا اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کیوں کہ آپ "کفو زہرا سلام اللہ علیھا" تھے۔ بی بی سلام اللہ علیھا نے پوری رات امت کے لئے دعا مانگی اور جب آپ کے فرزند اکبر نے سوال کیا تو جواب میں فرمایا ’’ائے میرے نور نظر پہلے پڑوس اسکے بعد گھر‘‘ اب اس عظیم الھی ذات کے ہمسر نے بھی کبھی اپنے لئے خدا سے کچھ نھیں مانگا۔ لیکن ہاں ایک دعا ضرور فرمائی کہ پروردگار ایسا بہادر بیٹا دےدے جو تیرے دین کی حفاظت میں ناصر حسین (علیہ السلام) ہو‘‘ ظاھرا یہ دعا بیٹے کے لئے ہے لیکن اس میں بھی للھیت جلوہ فگن ہے کہ اگر ایسا بہادر بیٹا مطلوب ہے تو وہ بھی تیرے دین کے لئے۔
اپنے بھائی نساب عرب جناب عقیل سے اس گوہر شجاعت و وفا کے صدف کے سلسلہ میں مشورہ فرمایا۔ لیکن اس صدف کی جستجو میں صرف بہادری محور نھیں بلکہ دینداری و وفاداری کو بھی اولیت حاصل ہے۔ نساب عرب کے مشورہ پہ رشتہ طےہوا اور وہ صدف گوہر وفا بیت وحی میں داخل ہوئیں۔ اور اللہ نے اس صدف کو وفا کا ایسا گوہر عطا فرمایا جسکو خاتون جنت نے اپنا بیٹا، قسیم النار والجنہ نے اپنا ثانی، جوانان جنت کے سرداروں نے اپنا بھائی و جاں نثار اور اللہ کے اولیاء چاہے وہ حضرت زین العابدین (علیہ السلام) ہوں یا قرآن ناطق امام صادق (علیہ السلام) ہوں یا سلطان عرب و عجم ہوں یا پھر منجی عالم بشریت کہ جنکا قصیدہ قرآن پڑھے انھوں نے انکی وفا و فداکاری کا قصیدہ پڑھا۔
جب یہ گوہر فضیلتوں کی اس معراج پرہےکہ قرآن کریم کے ممدوح اسکی مدح کریں تو یقینا صدف کی بھی فضیلت اپنی مثال آپ ہو گی۔ روایت کے مطابق جب جناب عقیل رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد ماجد جناب حزام کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا تو جہاں انکی خوشی کی انتہاء نہ تھی وہیں حیرت و تعجب کا بھی کوئی جواب نہ تھا کہ کہاں فضیلتوں کا دمکتا سورج اور کہاں انکا گھر۔ آخر فوری کیا جواب دیں لہذا اجازت مانگی کہ پہلے گھر کی فضا کو اس خوشخبری کےعطر سے معطر اور پیغام کے نور سے منور کر دوں ۔ ادھر گھر میں جناب ام البنین کی والدہ انکوکنگھی کر رہی تھیں اور بیٹی اپنی ماں سے اپنا خواب بیان کر رہی تھی کہ "میں نے دیکھا کہ میں ایک سر سبز و شاداب باغ میں ہوں اور آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور کہکشاں اپنے جلوے بکھیر رہی ہے کہ اچانک چاند میری آغوش میں آ گیا اور تین ستارے بھی ٹوٹ کر میری آغوش میں آگئے ۔ میں حیرت زدہ تھی کہ ہاتف غیبی نے میرا نام لے کر صدا دی جسے میں سن رہی تھی لیکن کوئی دکھا نہیں۔ ’’فاطمہ تمہیں مبارک ہو چاند اور تین ستارے کہ جنکے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد تمام انسانوں کے سردار ہیں‘‘جسکے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں بہت ڈر گئی۔" والدہ گرامی میرے خواب تعبیر کیا ہے؟
ماں نے کہا کہ بیٹی تمہارا خواب سچا ہے عنقریب تمہاری ایک جلیل القدر شخصیت سے شادی ہو گی جس کی اطاعت امت پر واجب ہوگی اور تمہیں اللہ چار بیٹے عطا کرے گا کہ پہلا بیٹا چاند کی طرح اور تین ستاروں کی طرح خوبصورت ہوں گے۔ کہ اسی وقت جناب حزام کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی اہلیہ کو جناب عقیل کا پیغام سنایا اور کہا کہ اگر میری بیٹی میں بیت رسالت کی خدمت کی اہلیت ہو تو یہ رشتہ قبول کر لیں۔ تو زوجہ نے کہا ائے حزام! خدا کی قسم میں نے اپنی بیٹی کی ایسی نیک تربیت کی ہے اور خدا سے دعا کی ہےکہ وہ سعادت مند ہو، اس میں امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت کی صلاحیت ہے۔ دونوں جانب کی رضامندی کے بعد شادی ہوئی اور جناب ام البنین سلام اللہ علیہا اپنے والد کے گھر سے بیت وحی کی جانب روانہ ہوئیں۔
جب بی بی بیت ولایت پر تشریف لائیں تو فرمایا میں اس وقت تک اندر قدم نھیں رکھوں گی جب تک خاتون جنت کی بڑی بیٹی مجھے داخلےکی اجازت نہ دے دیں۔ اور جب گھر میں داخل ہوئیں تو اس وقت سبطین رسولؐ حضرت امام حسن و امام حسین علیھماالسلام مریض تھے اگر چہ آپ ایک نئی نویلی دلہن تھیں لیکن اسکے باوجود آپ نے سبطین کریمین علیھماالسلام کی خدمت و تیمارداری کو مقدم رکھا اور امیر المومنین علیہ السلام سے درخواست کی کہ "آپ مجھے میرے نام یعنی فاطمہ سے مخاطب نہ فرمائیں بلکہ میری کنیت ام البنین سے مجھے مخاطب فرمائیں کیوں کہ میںنہیں چاہتی کہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنی والدہ ماجدہ کا نام سن کر ان کی مظلومیت و مصیبت کو یاد کر کے غمزدہ ہوں۔
حقیقت ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا دنیا کی واحد خاتون ہیں جنھوں نے اولاد زہرا سلام اللہ کو اپنے اور اپنی اولاد پرہمیشہ مقدم رکھا بلکہ اپنی اولاد کو اولاد سیدہ ؑ پر قربان فرمایا جیسا کہ روایت میں ہے کہ جب اہل حرم کا لٹاہوا کاروان واپس مدینہ آیا اور بشیر نے سنانی سنائی تو آپ نے بشیر سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو بشیر نے کہا کہ آپ کی اولاد شھید ھو گئیں تو آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے میرے آقا امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ میں بتاو۔ میری اولاد کیا اس نیلے آسمان کے نیچے جو کچھ ہے سب امام حسین علیہ السلام پہ قربان ہے۔‘‘ اور جب اللہ نے انکی آغوش میں اس بچہ کو دیا جو امیر کائنات کی تمنا و آرزو تھا تو اسکی بھی ایسی تربیت فرمائی اور بچپن سے یہی تعلیم دی کہ تمھارے باپ اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں لیکن تمہاری ماں یہ کنیز ہے اور حسنین کریمین علیہما السلام کی ماں خاتون جنت ہیں۔ بی بی نے نہ فقط اس
ایک بچے کو بلکہ اپنے چاروں بیٹوں کویہی بتایا کہ وہ بنت رسول ؐ کے فرزندہیں اور تم میرے۔ لھذا کبھی انکی برابری کی کوشش نہ کرنا بلکہ انکی غلامی پہ فخر کرنا۔ اور ایسی تربیت فرمائی کہ چاروں نے کربلا میں فرزند رسولؐ کی نصرت میں اپنی جان دے دی۔ یہ بات مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہےکہ تمنا ایک کی کی تھی لیکن جناب ام البنین نے ایک نہیں بلکہ وفا کو چار چاند لگائے۔ اور وہ چاروں کا شمار ان شہدا ءمیں ہوا جنکے لئے امام معصوم نے فرمایا " آپ بھی پاکیزہ اور وہ زمین بھی پاکیزہ ہو گئی جہاں آپ دفن ہوئے۔ اور آپ کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔ ائے کاش ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے" امام معصوم کی اس حدیث کی روشنی میں جناب ام البنین کی فضیلت آشکار ہوتی ہے کہ آپ نے ایسے فرزند تربیت فرمائے کہ معصوم امام نے بھی جنکی ہمراہی کی آرزو فرمائی۔ صرف بیٹوں کی قربانی پہ آپ کی عظیم فداکاری کا سلسلہ نہیں رکا بلکہ جب اہل حرم واپس مدینہ آئے تو آپ نے بیت الحزن کو دوبارہ آباد کیا اور عقیلہ بنی ہاشم کی نگرانی میں کربلا کے عظیم پیغام کو نشر فرمایا۔
صدف وفا حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت سے سرشار ، اسی محبت و اطاعت پر اپنے بچوں کی تربیت فرمائی اور شجاعت وفصاحت سے اہل بیت ؑ کی پاسبانی کی۔
شہید ثانی ؒو مرحوم مقرمؒ نے فرمایا : ’’جناب ام البنین کو اہلبیتؑ سے شدید محبت تھی اور اپنی زندگی کو اہلبیتؑ کے لئے وقف کردیا ۔ اہلبیتؑ بھی انکا احترام فرماتے خصوصا روز عید انکے یہاں تشریف لے جاتے تھے۔ ‘‘
مرحوم باقر شریف قرشیؒ نے فرمایا: ’’حضرت ام البنینؑ جیسی خاتون تاریخ میں کہیں نہیں ملی کہ جو سوتن کے بچوں سےایسے خلوص و محبت سے پیش آئے اور انکو اپنے بچوں پر فوقیت دے۔‘‘
آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا نائینیؒ اور آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیا عراقیؒ کے شاگرد آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمود حسینی شاہرودیؒ نے فرمایا : ’’میں مشکلات میں سو مرتبہ حضرت ام البنینؑ پر صلوات پڑھ کر اپنی حاجت حاصل کرتا ہوں۔‘‘
واقعہ کربلا کے بعد آپ کا دستور تھا کہ بیت الحزن میں جا کر شہدائے کربلا کی عزاداری فرماتی اور اپنی باقی زندگی کو نوحہ و گریہ میں بسر کیا اور آپ کے دلخراش نوحہ و گریہ سے دوست تو دست دشمن بھی اپنے آنسو نہیں روک پاتاتھا۔ اسی عالم میں ۱۳ ؍ جمادی الثانی ۶۴ ھ کو دنیا سے گذر گئیں اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔