۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
بزرگداشت حاج قاسم سلیمانی

حوزہ/ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جہاں جامعیت کے ساتھ اس شہید فقید کا تعارف کروایا ہے وہاں دشمن کو بھی یہ پیغام دیا ہے شہید قاسم سیلمانی صرف جنرل ہی نھیں تھے بلکہ ایک مکتب کا نام ہے جو اپنے افکار کے ساتھ زندہ تھا اور زندہ رہے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعہ اسوہ، قم المقدسہ میں شہادت مدافع ولایت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اور شہید قاسم سیلمانی و انجینئر ابو مہدی المہندس کی دوسری برسی کے عنوان سے ایک تعزیتی مجلس کا انعقاد کیا گیا۔

مقررین نے ایام شہادت بی بی دو عالم حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا اور ان کی راہ پر گامزن شہید قاسم سلیمانی و ابومہدی امہندس کے عنوان سے ان شخصیات کے عالمانہ، سیاسی اور مجاہدانہ کردار پر سیر حاصل گفتگو کی۔

مولانا ڈاکٹر سعید مہدی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فرمان : "شہید قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے "پر روشنی ڈالی اور بیان کیا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جہاں جامعیت کے ساتھ اس شہید فقید کا تعارف کروایا ہے وہاں دشمن کو بھی یہ پیغام دیا ہے شہید قاسم سیلمانی صرف جنرل ہی نھیں تھے بلکہ ایک مکتب کا نام ہے جو اپنے افکار کے ساتھ زندہ تھا اور زندہ رہے گا۔ شہید کے جانے سے اس مکتب کے پیرو کار اسے زندہ رکھیں گے۔
تلوار کی دھار سے کٹ سکتی نھیں کردار کی لو
بدن کی موت سے کر دار مر نھیں سکتا

تم سمجھ رہے تھے شہید قاسم سیلمانی اور ابو مہدی المہندس کو شہید کر کے تم اپنے مقاصد میں کا میاب ہو جاو گے۔
نور خدا ہے کفر کی حالت پے خندہ زن
پھونکو ں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاے گا۔ وعدہ الہی ہے بریدون ان یطفوا نور اللہ با فواھھم وللہ منتم نور ہ ولو کرہ الکافرون.

مکتب شھید مرتضی مطھری کی نگاہ میں ایک تھیوری اور جامعہ اور مکمل منصوبہ هے جسکا اصلی ھدف انسان کے لے کمال اور سعادت کی راہ کو معین کر نا ہے شہید قاسم سیلمانی نے اپنی پاکیزہ فکر اور عمل کے ذریعے اس مکتب کی بنیاد رکھی اور مادیات کے اس دور میں ظلمت سے نکل کر نور کیطرف راہ کی راھنمایی فرمائی۔۔آگے چل کر بیان کیا کہ جب شہید قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ھے تو پھر اس کے اندر جامعیت کا عنصر موجود ہے جو ھر دور کے عشاق کو راھنمایی کر سکتا ہے۔ جب شہید ایک مکتب اور مدرسہ ہے تو پھر جس طرح ایک مدرسہ اور مکتب میں مختلف علوم ہوتے ہیں، شہید قاسم سلیمانی کا مکتب بھی اپنے طالب کے لئے نصاب رکھتا ہے، جہاں اخلاق و معنویت، خدا کے ساتھ ارتباط ، اخلاص، یقین کامل، عزم راسخ، سعہ صدر، بردباری، عشق و محبت، شناخت دشمن، بصیرت، مقاومت، جس کی تفسیر علمی معاشرے میں رہتے پاکیزہ اور بابصیرت افراد میدان جنگ میں موجود مجاہدین اور اس کی علمی تفسیر بابصریت علماء کا وظیفہ ہے۔جب مکتب ہے تو پھر اپنے اندر اسرار و پیغام رکھتا ہے،

انہوں نے کہا کہ دانشمندوں اور تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک وسیع وادی ہے، جنگی مہارت ہو یا پھر دشمن کے خلاف جنگ نرم، عرفان و معنویت کی بات ہو یا پھر اخلاص و عقیدت، ٹیبل ٹاک کی بات ہو یا دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی۔ جذبۂ شہادت ہو یا جذبۂ فداکاری، ناموس کی حفاظت کا معاملہ ہو یا انسانی جانوں کو خونخواروں سے نجات دلانے کی بات، خدا ہو یا دشمن، بے رعب و دبدبہ، یتیموں سے محبت ہو یا مصیبت زدہ افراد کی مدد، اہل تحقیق کے لئے ایک وسیع میدان ہے، یہ بابصیرت علماء اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اس مکتب کو شفاف انداز میں آئندہ نسلوں تک پہنچائیں اور اس مکتب کو تحریف سے بچائیں۔جب مکتب کی بات ہے تو پھر مکتب روش مند اور ہدف مند ہوتا ہے، اس کا نکتۂ آغاز بھی ہے اور نکتۂ انجام بھی، ایرانیوں کے بقول اس میں رویش بھی ہے اور زایش بھی ۔ خود سازی سے شروع ہو کر معاشرہ سازی اور وحدت سے کثرت کی طرف جاری و ساری ہےآخری بات ہے جب یہ مکتب ہے تو "اصلہ ثابت و فرعھا فی السماء" کے تحت ایسا شجرہ طیبہ ہے۔ تؤتی اکلھا کل حین اس کے ثمرات اور پھل صرف ایک موسم کے لئے نہیں بلکہ ہر موسم میں پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ باذن ربّھا اپنے رب کے اذن کے ساتھ ہر ایک کے لئے ہے، جب اس مکتب عشق کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے تو پھر یاد رکھتا ہوگا:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ۔

اس کے بعد آقای انصر عباس نے فضایل حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو بیان فر مایا اور آقای امجد خان نے سیرت حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا اور مصایب کو بیان فر مایا اور مجلس کے آخر میں شھید قاسم سیلمانی، ابو مھدی المھندس اور شھدائے اسلام کی بلندی درجات اور انکی راہ پر چلنے کی دعا کیساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .