۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
خانوادہ فخری زادہ ۲

حوزه/ جب ٹیلی ویژن پر نیتن یاہو نے ان کا نام لیا تو وہ خود یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے نیتن یاہو کو ایک مسکراہٹ کے ذریعہ جواب دیا۔ شہید محسن فخری زادہ کے بیٹے ان کے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز پر مسکرا رہے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا: کہ گویا کہہ رہے تھے:"جب تک میں زندہ ہوں نیتن یاہو ایک رات بھی چین کی نیند سو نہیں پائے گا۔"

حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر میں ایرانی ممتاز سائنسدان شہید محسن فخری زادہ کے اہل خانہ کے ساتھ ایک صمیمی نشست:

حوزہ نیوز ایجنسی: ہم "فخر ایران" جناب شہید محسن فخری زادہ کے انتہائی  سادہ ، کسی بھی نمود و نمائش سے خالی اور نہایت ہی نرم مزاج اہل خانہ کی خدمت میں حاضر تھے۔ وہ خوش تھے کہ ان کے بھائی کا دیرینہ خواب(مقام شہادت کا حصول) پورا ہو گیا تھا۔ لیکن وہ ابھی اپنے بھائی کو کھونے کے غم سے نکل نہیں پائے تھے۔چونکہ وقتا فوقتا ان کے چہرے کے تاثرات اس بات کا پتا دیتے تھے کہ شہید فخری زادہ کو اپنے خاندان میں مرکز کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ انہوں نے آج ہمیں اس شہید کی تلخ اور شیرین یادوں کا مہمان بنایا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی میڈیا ٹیم "فخر ایران" کی عظیم شخصیت کے ایک گوشے کی عکاسی کے لئے "شہید محسن فخری زادہ" کے دو بھائیوں مجید فخری زادہ  اور سعید فخری زادہ اور ایک بہن محترمہ فخری زادہ کی میزبان تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی: حوزہ نیوز ایجنسی کو فراہم کردہ اس فرصت پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ براۓ کرم ہمیں شہید محسن فخری زادہ کے اہل خانہ اور ان کے بچپن کے بارے میں تھوڑا بتائیں۔

محترمہ فخری زادہ (شہید کی بہن): شہید فخری زادہ اس خاندان کا دوسرے فرزند تھے۔ وہ خاندان کا پہلا بیٹا اور دوسری اولاد تھے۔وہ ۱۰ اردیبھشت 1340شمسی(مطابق 30 اپریل 1961ء)کو پیدا ہوئے۔ شہید کی والدہ جب حاملہ تھیں تو انھوں نے حضرت امام موسی کاظم(ع) کا خواب میں دیکھا ۔جنہوں نے اس فرزند کے دائیں پاؤں پر نشانی کی اطلاع دی اور خواب میں فرمایا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہو گا۔

شہید محسن فخری زادہ اپنی پیدائش کے بعد بعض مخصوص رفتار اور کردار کے مالک تھے۔ یہاں تک کہ تین سال کی عمر میں انہوں نے ایک بھنبھری(ڈریگن فلائی) کو اڑتے ہوئے دیکھا اور اس منظر کو دیکھنے کے بعد اپنی والدہ سے کہا: "اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ہیلی کاپٹر کو اسی ڈریگن فلائی کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ہے اور یہ اس کی ظاہری شکل کو بھی بیان کرتا ہے۔

شہید محسن فخری زادہ نے پانچ سال کی عمر میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا ۔ شروع کی کلاس میں ان کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے اسکول کے عہدیداروں نے کہا کہ انہیں پہلی جماعت میں داخلے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس وقت ہمارے گھر کے سامنے مسجد تھی اور وہ ہمیشہ نماز کو مسجد میں باجماعت ادا کیا کرتے تھے اور ہمیں یاد نہیں ہے کہ انہوں نے بلند آواز سے والدین سے کبھی بات کی ہو۔

شہید کریمی اسکول میں مڈل اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے حکیم نظامی اسکول  میں داخل ہو گئے اور جیسے ہی انقلاب اسلامی کا آغاز ہوا  وہ انقلاب کے ابتدائی حامیوں میں شامل ہوئے اور وہیں سے مرحوم امام خمینی(رہ) کی راہ پر گامزن ہوئے۔

شہید محسن فخری زادہ نے انقلاب اسلامی کے دوران ہوئے مظاہروں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور صرف نعرے بازی نہیں کی۔

اسی سال جب وہ ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہوئے۔ انقلاب اسلامی ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا تھا، انہیں فیزکس یونیورسٹی میں قبول کرلیا گیا تھا۔ وہ ابتداء ہی سے ایٹمی طبیعیات میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔

جوانی کے اوائل میں ہی وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "میں ایران کو علم اور پیشرفت کے اعتبار سے ایسی جگہ لانا چاہتا ہوں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے وہ تمام ممالک میں اپنی ایک مستقل شناخت رکھتا ہو"۔ انہوں نے جہاں تک ہو سکا اپنے اس مقولہ پر عمل درآمد کیا اور ایران کے نام کو دنیا میں سرافراز کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی: شہید فخری زادہ قم میں کب تک موجود رہے؟

مجید فخری زادہ: شہید فخری زادہ 18 سال کی عمر تک قم میں موجود رہے اور یونیورسٹی میں قبول ہونے اور پاسداران انقلابی گارڈز کے رکن منتخب ہونے کے بعد وہ قم سے چلے گئے۔

پھر انہیں فزکس میں ماسٹرز(بیچلر ڈگری) کے لئے شہید بہشتی یونیورسٹی تہران میں قبول کیا گیا اور اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے امام حسین یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کا آغاز کیا اور اصفہان یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور شہید بہشتی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی: توپس  ان سب اوصاف کے ساتھ معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی ساری تعلیم ایران کے اندر ہی مکمل کی تھی؟

مجید فخری زادہ: جی ہاں؛ انہوں نے اپنی ساری تعلیم ایران میں ہی حاصل کی اور بیرون ملک تعلیم حاصل نہیں کی اور صرف اپنی کام کے متعلق سرگرمیوں کے لئے ہی بیرون ملک سفر کیا کرتے۔

 حوزہ نیوز ایجنسی: ہمیں قم المقدسہ کے مقدس مقامات مثلا حرم حضرت فاطمہ معصومہ(س) اور مسجد مقدس جمکران میں ان کی دلچسپی کے متعلق بتائیں۔

جناب سعید فخری زادہ: وہ نہ صرف قم المقدسہ بلکہ تمام ائمہ اطہار(ع) کے سچے عاشق تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا حضرت فاطمہ  معصومہ (س) سے خصوصی عقیدت اور لگاؤ تھا۔ اسی طرح انہیں حضرت فاطمہ زہرا(س) سے بھی خاص عقیدت تھی۔ جب بھی ان کے سامنے ان دو ہستیوں کا نام لیا جاتا تو ان کے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی: انہوں نے کس سال شادی کی اور ان کی اولاد کتنی ہے؟

جناب سعید فخری زادہ: شہید محسن فخری زادہ کی شادی فروری1982ء میں ہوئی۔

شادی کے بعد اوائل میں وہ تہران منتقل ہوئے اور پھر کردستان چلے گئے ۔پہلے بچے کی پیدائش کے قریب وہ اپنی اہلیہ کو تہران لائے اور پھر خود کردستان واپس آگئے۔ 198۴ء میں جب ان کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی تو وہ خود وہاں موجود نہیں تھے اور وہ خود دو ہفتے بعد تہران پہنچے۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔  

حوزہ نیوز ایجنسی: جیسا کہ شہید فخری زادہ دنیا کے 500 طاقت ور افراد کی فہرست میں شامل پانچ ایرانیوں میں سے ایک ہیں۔شہید کے اہل خانہ کو کب ان کی اعلی تعلیمی صلاحیت کا علم ہوا؟

محترمہ فخری زادہ: جب 20 سال قبل ان پر پہلا ناکام قاتلانہ حملہ ہوا تھا تب ہمیں ان کی اعلی علمی سطح اور ذمہ داری کا پتا چلا۔

وہ اپنے اعلی علمی مقام کے باوجود جب بھی کسی خاندانی محفل میں موجود ہوتے  تو ان میں ان کے اس علمی مرتبے کا کوئی تاثر نہیں ملتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ دو ، تین سالہ بھانجوں اور بھتیجوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتے۔

وہ اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ نہایت ہی اچھے طریقے سے پیش آتے اور ہمیں واقعا یہ نہیں معلوم تھا کہ انہیں اپنے تین بھائیوں اور چار بہنوں میں سے کون زیادہ پسند ہے۔

سعید فخری زادہ: وہ یکے بعد دیگرے تمام سائنسی پیشرفت کے مراحل سے گزرتے رہے اور انہوں نے اپنے علمی منصب کے لئے اپنی اہلیت کا مظاہرہ کیا  حتی کہ وہ اس مقام پر پہنچے کہ ملعون نیتن یاہو نے بھی ان کا نام لیا۔

اس سلسلہ میں ان سے ایک واقعہ منقول ہے کہ جب ٹیلی ویژن پر نیتن یاہو نے ان کا نام لیا تو وہ خود یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے نیتن یاہو کو ایک مسکراہٹ کے ذریعہ جواب دیا۔ شہید محسن فخری زادہ کے بیٹے ان کے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز پر مسکرا رہے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا: کہ گویا کہہ رہے تھے:"جب تک میں زندہ ہوں نیتن یاہو ایک رات بھی چین کی نیند سو نہیں پائے گا۔"

شہید کی بہن: وزیر دفاع نے اپنی تقریر میں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ نیتن یاہو سے پوچھا گیا کہ آپ کو سب سے بڑی تشویش کیا ہے؟ تو اس نے لگاتار تین بار کہا: ایران ، ایران ، ایران۔ تو معلوم ہوا کہ اگر شہید جیسے گمنام لوگ نہ ہوتے اور بعض عظیم کاموں کو انجام نہ دیتے تو نیتن یاھو کو ایران کے بارے میں کوئی تشویش نہ ہوتی۔  

حوزہ نیوز ایجنسی: جو شخص شہادت کے اعلی مقام کو حاصل کرتا ہے حتماً اس میں ایک خاص خلوص اور پاکیزگی کا ہونا ضروری ہے۔ ان کی پاکیزگی ، اخلاص اور عرفانی حالت کی وضاحت کریں۔

مجید فخری زادہ: وہ ہمیشہ نماز صبح سے آدھ گھنٹہ قبل اور صبح کی نماز کے ایک گھنٹہ بعد تک عرفانی مطالعہ کیا کرتے اور تفسیر کی کتابیں اور روحانی کتب کا مطالعہ کیا کرتے۔ ان کی نماز میں کچھ ایسی خاص کیفیت ہوا کرتی کہ ہم ان پر رشک کیا کرتے اور اپنی نمازوں میں ان کی اقتدا کرتے تھے۔

محترمہ فخری زادہ: یہ شہید عزیز تصوف و روحانیت کے اس درجے پر پہنچے ہوئے تھے کہ جس میں کوئی "انا" نہیں تھی اور وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیا کرتے کہ لفظ "میں" کا استعمال نہیں کرنا چاہئے اور کہا کرتے: "جب تک خداوند متعال کا لطف انسان کے شامل حال نہ ہو تو ممکن نہیں کہ وہ کوئی بھی کام ٹھیک طریقہ سے انجام دے سکے "۔

حوزہ نیوز ایجنسی: اگر آپ کے ذہن میں رهبر معظم انقلاب کے ساتھ ان کی ہوئی ملاقاتوں کے بارے میں کوئی نکتہ ہے تو بتائیں۔

سعید فخری زادہ: وہ ہر ہفتہ میں ایک دن رهبر معظم انقلاب سے ملاقات کیا کرتے تھے اور ان چند لوگوں میں شامل تھے جو بغیر کسی مربوط رابطے کے ہی رهبر معظم انقلاب کے دفتر جا سکتے تھے اور خود رهبر معظم انقلاب اسلامی انہیں "آقای محسن" کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

مجید فخری زادہ: ان کی اہلیہ نے بتایا ہے کہ رهبر معظم انقلاب مجھ سے کہا کرتے تھے: "میں آقای محسن سے بہت راضی اور مطمئن ہوں۔  کیا آپ بھی ان سے مطمئن ہیں یا نہیں؟(مسکراہٹ کے ساتھ)۔

حوزہ نیوز ایجنسی: شہید فخری زادہ کے اپنے والد ، والدہ ، بچوں ، بیوی ، بھائی ، بہنوں وغیرہ سے تعلقات کے بارے میں بتائیں۔

سعید فخری زادہ: ان کا اپنے والدین کے ساتھ رابطہ اور تعلق نہایت عاطفی اور مضبوط تھا۔

ہماری ماں نے بغیر وضو کے اپنے کسی بچے کو دودھ نہیں پلایا اور نہ ہی ان کی نمازوں میں کبھی تاخیرہوئی۔

ان کا اپنی زوجہ سے تعلق بھی انتہائی صمیمی تھا اور وہ ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے اور عام طور پر وہ اپنی بیوی کے بغیر کہیں نہیں جاتے تھے۔ وہ اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی اپنے بچوں کے ساتھ دوستی سب رشتہ داروں میں مشہور تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی: آپ نے شہید فخری زادہ کی شہادت کے بارے میں کیسے سنا؟

مجید فخری زادہ: ہم ٹیلی ویژن دوست فیملی ہیں اور ہمیں ٹی وی دیکھنے میں بہت دلچسپی ہے اور اگر ہم ٹی وی نہ بھی دیکھ رہے ہوں توبھی ٹیلی ویژن ہمارے سامنے آن رہتا ہےاور ہمیں اس کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ لیکن معلوم نہیں کیسے ان کی شہادت کے دن  قم میں رہنے والے کسی بھی اہل خانہ کے افراد میں سے کوئی بھی ٹی وی پر نہیں تھا؟! اور اسی طرح کمال تعجب کی بات ہے کہ ہم میں سے کسی نے سوشل میڈیا وغیرہ پر بھی بالکل ان کی شہادت کی خبر کو نہیں دیکھا اور یہ واقعی حیرت کی بات ہے کہ نامعلوم ایسا کیوں ہوا؟!۔ ہم نے ان کے بیٹے کی زبانی  ان کی شہادت کی خبر سنی۔  جس نے فون کیا اور بتایا کہ کیا واقعہ ہوا ہے۔ وہ بہت روئے جا رہا تھا اور یہی کہتا کہ "بس دعا کریں۔"

حوزہ نیوز ایجنسی: کیا انہوں نے کبھی اپنی شہادت کی بات کی؟ اور کیا وہ  اس کا کبھی اظہار کیا کرتے؟

جی ہاں، وہ ہمیشہ اس کے بارے میں بات کیا کرتے۔ خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد وہ اپنی شہادت کے لئے آمادہ تھے اور کہا کرتے کہ اب میری شہادت کی باری ہے۔ وہ تو حتی شہید علی، شہید شہریاری اور رضائی نژاد کی شہادت کے بعد بھی اپنی شہادت کے منتظر تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی: اگر آپ شہید فخری زادہ کی ایک جملے میں توصیف کرنا چاہیں تو کیا کہیں گے؟

شہید کی بہن:"عالم با عمل"۔ ایسا جملہ ہے کہ جس سے شہید کی ایک جملے میں توصیف کی جا سکتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .