حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،"سرباز روز نھم" (نویں دن کا سپاہی) اسلامی انقلاب کے انسان کی داستان ہے سادہ اور پیچیدہ، ایک کثیر جہتی ایکویشن "اب کئي سال بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ جس قدر میں اس شہید کے بارے میں غور اور تحقیق کرتا ہوں، اتنا ہی اس سے دور ہوتا جاتا ہوں۔ میں اور مصطفی صدر زادہ ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ کسی زمانے میں، میں کشتی سیکھا کرتا تھا۔ شہریار میں، میں اسی جم میں جایا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں مصطفی بھی کشتی سیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس وقت میری زندگي کی ایک حسرت یہ ہے کہ میں، مصطفی کی ظاہری زندگی کے وقت ان سے کیوں نہیں ملا! میں بھی ثقافتی کام کرتا ہوں۔ اسی مسجد امیر المومنین میں گيا تھا، میں نے مصطفی کو کیوں نہیں دیکھا تھا!" ہم محمد مہدی رحیمی سے انٹرویو کر رہے تھے جو ایک مصنف اور محقق ہیں اور جنھوں نے مصطفی صدر زادہ پر کتاب لکھنے کا منصوبہ، سنہ 2015 میں ان کی شہادت کے کچھ ہی دن بعد بنا لیا تھا اور بقول ان کے آج تک وہ اس کام میں مصروف ہیں۔
وہ اس کام میں اتنے زیادہ مصروف ہو گئے کہ "سرباز روز نھم" اس کام کا جزوی حصہ ہے۔ "عابدان کہنز" نامی ڈاکیومینٹری، جس کے بارے میں برسوں بعد بھی سب لوگ بات کرتے ہیں، اس پروجیکٹ کا ایک نتیجہ ہے، اس کے علاوہ کچھ اور ثقافتی کام بھی ہیں جو اپنی جگہ پر کافی مشہور ہیں۔ رحیمی اپنی حسرتوں کے بارے میں بتا رہے ہیں اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کس طرح تہران کے مضافات کا ایک بظاہر معمولی سا شخص، جس کی جائے رہائش کا نام بھی شاید بہت سے لوگوں نے نہ سنا ہو، اب ایک عظیم ثقافتی و فکری تحریک و تبدیلی کا علمبردار بن چکا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ شخصیت اپنی ظاہری اور دنیوی حیات میں ہم لوگوں کی نظروں میں ہی نہیں تھی بلکہ بہتر الفاظ میں کہا جائے تو انھوں نے یہ چاہا ہی نہیں کہ ہماری نظروں میں آئيں۔
شاید ایسے لوگ بھی مل جائيں جنھوں نے اسی زمانے میں مصطفی سے کہا ہو کہ تو کیا ہوا؟! اتنی دوڑ بھاگ، انجمن تیار کرنے، کالونی کے بچوں اور نوجوانوں کو مسجد اور امام بارگاہ کی عادت ڈالنے سے کیا ہوگا؟ نتیجہ کیا ہوگا؟ تم آخر ہو کیا؟ کتنی طاقت ہے تم میں؟ اب میں یہاں پر اس مصنف اور محقق کے سامنے، جو اپنی ظاہری حیات میں مصطفی کے لوگوں کی نظروں میں نہ ہونے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اس بات کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو کسی نے، مصطفی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کسی نشست میں اپنے کسی قریبی سے کہی تھی کہ، شہید کے ہاتھ تو شہادت کے بعد کھلتے ہیں۔ اب شہید کا خون ہے جسے حیات مل گئي ہے اور وہ اپنا راستہ بنا رہا ہے اور کرۂ ارض کے ان مردوں کو زندہ کر رہا ہے جو بظاہر زندہ ہیں۔
شہید کا خون، حیات عطا کرتا ہے
"سرباز روز نھم" حیات کے انہی پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ شہید کے جاری ہونے والے خون کی ایک برکت ہے جس نے اپنا راستہ تلاش کر لیا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ خون آگے بڑھتا جا رہا ہے اور شہید کے افکار کو بہتے ہوئے پانی کی طرح پیاسی روحوں تک پہنچا رہا ہے۔ "سرباز روز نھم" کو شہید صدر زادہ کی شخصیت کے بارے میں شائع ہونے والی کتابوں کے درمیان، اب تک کی سب سے جامع اور مکمل کتاب سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی تحقیق اور شہید سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے میں تقریبا چھے سال کا وقت لگا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے بعض راوی، جنھوں نے شہید کے بارے میں اپنی یادیں بیان کی ہیں، اب ہمارے درمیان نہیں ہیں اور خود بھی شہیدوں کے قافلے سے ملحق ہو چکے ہیں۔ اگر "سرباز روز نھم" کی تحقیقاتی ٹیم، ان افراد کے پاس نہ پہنچی ہوتی تو شاید شہید صدر زادہ کے بارے میں ان افراد کی یادوں کا خزانہ ان کے ساتھ ہی مٹی میں دفن ہو جاتا۔
اس کتاب کے مصنف اور اصل محقق رحیمی کا کہنا ہے کہ شاید ہی کوئي ایسا شخص بچا ہوگا، جس کے شہید سے مراسم اور تعلقات رہے ہوں اور اس کتاب کے لیے اس سے رجوع نہ کیا گيا ہو۔ راویوں کی اتنی بڑی تعداد ہی اس بات کا سبب بنی ہے کہ شہید مصطفی صدر زادہ کی شخصیت کے مختلف پہلو، جہاں تک ممکن تھا، سامنے لائے جا سکے ہیں۔ ایک کثیر الجہات شخصیت، جو جہاں تکفیریوں کے ساتھ جنگ کے محاذوں پر ایک کامیاب کمانڈر ہے، وہیں تہران کے مضافات میں ایک چھوٹی سی کالونی میں سماجی، ثقافتی اور عمومی فوائد کی سرگرمیوں کے میدان میں بھی درخشاں کارکردگی کا حامل ہے۔
ایک انسان اور اتنے سارے کام
یہ ساری چیزیں، اہم اخلاقی صفات و خصوصیات کے ساتھ ہیں۔ اسی وجہ سے مصطفی کی شخصیت کو ٹیلی اسکوپ کے نیچے لانا اور ان کے بارے میں مطالعہ کرنا، خود ہی ایک اہم بات ہے۔ یہ کہ ایک انسان اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بیس سے تیس سال کا ایک جوان، اتنی زیادہ وسیع سرگرمیاں انجام دے، جنھیں اکٹھا کرنے اور تحریر کرنے کے لیے ہی کافی طویل عرصہ درکار ہو، یہ ان سبھی لوگوں کی خصوصیت ہے جنھوں نے تاریخ کے دھارے کو موڑا ہے۔ ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں جو نہ صرف اپنے آس پاس کے ماحول کے اسیر نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے اپنے اطراف کے حقائق کو شگافتہ کرکے آگے بڑھنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ لوگ، ماحول کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے ماحول کو ہی بدل دیا۔
یہ لوگ اتنا آگے بڑھے ہیں اور انھوں نے ماحول اور حقیقت کو اس حد تک بدل دیا ہے کہ اب وہ خود حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب وہ ایسی حقیقت بن چکے ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آگے چل کر تاریخ اور سماجی، سیاسی اور انسانی علوم کے نظریات ہوں گے جو خود کو ان حقائق تک پہنچائيں گے اور ان کے بارے میں بات کریں گے۔ نئے زمانے میں امام خمینی اس طرح کے انسانوں کے سرخیل تھے اور مستقبل میں ہر شخص امام خمینی کے افکار و اہداف سے اپنی قربت یا دوری کے تناسب سے، ان کے جیسا ہو سکتا ہے، حقیقت کو چیر کر آگے بڑھ سکتا ہے اور اپنے آپ کو ایک حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
اس طرح کا ہونے کے لیے انسان کا ذاتی ظرف بہت بڑا ہونا چاہیے۔ بھاری بھرکم شخصیت ہونی چاہیے۔ ایسی شخصیتیں روز مرہ کی پیچیدگيوں اور دشواریوں کو عبور کر کے سادگي تک پہنچتی ہیں لیکن جب آپ ان کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی سادگي کے بعد والی پیچیدگي آپ کو مغلوب کر دیتی ہے۔ یہیں پر وہ بات پوری طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو "سرباز روز نھم" کے مصنف اور محقق کے حوالے سے اس تحریر کی ابتداء میں لکھی گئي تھی کہ "اب کئي سال بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ جس قدر میں اس شہید کے بارے میں غور اور تحقیق کرتا ہوں، اتنا ہی اس سے دور ہوتا جاتا ہوں۔" بڑے انسان یا بہتر الفاظ میں کہوں تو اسلامی انقلاب کے انسان جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں، جتنے سادہ نظر آتے ہیں، اتنے ہی پیچیدہ بھی ہیں اور اس راہ میں انھوں نے امام خمینی کی پیروی کی ہے۔