تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | سید المقاومت، شہید راہِ استقامت و انسانیت، ملت کے عظیم مجاہد، شجاعت کا پیکر، اور منبرِ حسینی کے بے مثال خطیب۔ یہ وہ مردِ حق تھا جس نے باب الحوائج سے مسکراہٹوں کی خیرات لے کر اپنے کاسۂ شعور میں سمیٹی اور زیر لب مسکراتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک ایسا چہرہ پیش کیا جو ایمان اور ایقان کی بلندیوں کو چھوتا تھا۔
جب وہ لبنان کی مقدس زمین پر شہادت کی آغوش میں پہنچا اور دشمن نے اس کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کی، تو قدرت نے اس کی صدا کو انسانیت کے ضمیر میں اُجاگر کر دیا۔ دشمن نے چاہا کہ شہید کی شہادت کو شکست دے، مگر شہادت کا آئینہ ہمیشہ حقیقت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ آئینہ حقیقت کا عکس دکھاتا ہے اور وہ عکس ہمیشہ سے ہی حقیقت کا آئینہ بن جاتا ہے۔
دشمن نے آئینے کو توڑنا چاہا، اس نے سوچا کہ حقیقت کو چھپا دے گا، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ٹوٹا ہوا آئینہ ہر زاویے سے حقیقت کو مزید نمایاں کر دیتا ہے۔ سید حسن نصراللہ طاب ثراہ، جنہوں نے اسرائیلی ظلم و ستم کو بے نقاب کیا اور دشمن کے چہرے پر لگے جبر و استبداد کے داغوں کو دنیا کے سامنے ظاہر کیا۔ دشمن نے پچاسی ٹن بارود سے اس آئینے کو توڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس بات سے غافل تھا کہ شہید کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
شہید کی کرچیاں دنیا بھر میں پھیل گئیں، اور ہر ایک کرچی نے ظلم کے چہرے کو ایک نئے زاویے سے عیاں کر دیا۔ لبنان سے لے کر ہندوستان، پاکستان، عراق، ایران، اور یمن تک ہر جگہ "لبیک یا نصر اللہ" کے نعرے بلند ہونے لگے۔ احتجاج کے جلوس، آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں شہادت کی چمک کے ساتھ، ہر سمت سید کے پیغام کی گونج سنائی دینے لگی۔ دشمن پر خوف و ہراس طاری ہو گیا، اور پوری دنیا میں حق پرست انسانوں اور صحافت نے اسرائیل کے ظلم کی مذمت کی۔
ہمارے ملک کے وہ منصف مزاج اور غیرت مند صحافی، جو حق کی راہ پر چلتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہیں، سلام کے مستحق ہیں۔ روش کمار، نوین کمار، سوربھ شاہی، پریگیا مشرا، ابھیسار شرما، اور عارفہ خانم شیروانی جیسے صحافی وہ زندہ ضمیر لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زبان اور قلم کا سودا نہیں کیا۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انسانیت کے درد کو اپنی تحریر و تقریر میں بیان کیا۔ ان کی زندہ زبانیں اور ضمیر اس بات کی دلیل ہیں کہ شہید کے خون کی سرخی آج بھی انسانیت کے ضمیر پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
ہم نے شہید کی تشبیہ آئینے سے دی تھی، اور آئینہ دو بنیادی کام کرتا ہے: انجذاب اور انعکاس۔ جو کچھ وہ اپنے اندر جذب کرتا ہے، وہی عکس کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ جب ایک شہید تعلیماتِ محمد و آل محمدؐ کو اپنے وجود میں جذب کر لیتا ہے، تو اس کا کردار اسی عکس کی عکاسی کرتا ہے۔
شہید سید حسن نصراللہ کی حیات طیبہ اسی حقیقت کا مظہر ہے۔ ان کی شہادت کی خوشبو صرف لبنان تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا بھر میں پھیل گئی۔ جب خون روحانی قید سے آزاد ہو جاتا ہے تو وہ ہر سرزمین پر اپنی مہک چھوڑتا ہے۔
اگر امت مسلمہ اتحاد کی قدر کو سمجھ سکے اور اپنے شیرازہ کو بکھرنے نہ دے، تو شہیدوں کا لہو اسرائیل کی ظلمت کو بہا لے جائے گا۔ ان شاء اللہ، شہیدوں کا خون اور ملت کا اتحاد قدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کا مژدہ بنے گا، کیونکہ شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
خون جب مقدس زمین پر گرتا ہے تو شہادت کہلاتا ہے، اور جب عشق دلوں میں بستے ہیں، تو وہ شہادت کا شوق پیدا کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔