۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقویؒ

حوزہ/ تمام اصولی علماء و فقہاء کے بالواسطہ یا بلاواسطہ استاداور امامیہ نماز جماعت و نماز جمعہ کے بانی، عزائے حضرت سید الشہداءؑ کے صحیح خد و خال کےمروج۔ دنیا میں ذاکری کو مستند اور محقق بنا کر علماء سے مختص کرنے اور ،شیعوں کو بصورتِ قوم پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صوفیت اور اخباریت کو شیعوں میں ختم کیا۔

تحریر: محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | بر صغیر کے پہلے مجتہد جامع الشرائط و مرجع تقلید، نامور فلسفی، جنہوں نے پہلی بار ہندوستان میں مدرسۂ فقہ و اجتہاد قائم کیااورسیکڑوں شاگردوں کو زیورِ علم سے آراستہ کر کے تبلیغ دین اور ترویجِ عزائے امام حسینؑ کے لئے ہندکے گوشہ گوشہ میں بکھیر دیا۔ تمام اصولی علماء و فقہاء کے بالواسطہ یا بلاواسطہ استاداور امامیہ نماز جماعت و نماز جمعہ کے بانی، عزائے حضرت سید الشہداءؑ کے صحیح خد و خال کےمروج۔ دنیا میں ذاکری کو مستند اور محقق بنا کر علماء سے مختص کرنے اور ،شیعوں کو بصورتِ قوم پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صوفیت اور اخباریت کو شیعوں میں ختم کیا۔

’’نیک عادات بہترین صفات‘‘

01-ان نیک عادتوں میں ایک عادت آخر شب میں مسجد کی جانب نکلنا ،اللہ کی تسبیح و تہلیل میں مصروف رہنا،نافلہ فجر سے فارغ ہونے کے بعد فریضہ انجام دینا اور دیر تک تحقیقی امور میں مشغول رہنا، کلمات کے تلفظ میں غلطی کرنے والوں کو مہلت دینا ان سے نرمی سے پیش آنا۔ مصیبت زدہ لوگوں کا ان کے ارد گرد جمع ہونا ، ان سے رازونیاز کی باتیں کرنا، آپ ان لوگوں سے بڑی نرمی سے کلام کرنا اور جب وہ واپس پلٹ جاتے تو دوبارہ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے تھے دعا کے بعد دو سجدۂ شکر بجالاتے ، زیارت امام حسینؑاور پھر لوگوں سے مصافحہ کرتے تھے ۔

02- ان کی نیک عادتوں میں سے ایک عادت مغرب کے بعد4؍ رکعت نافلۂ مغرب پڑھنا اگر وقت تنگ ہے تو دو رکعت پر اکتفاء کرنا پھر تعقیبات نماز پڑھنا اور زیادہ تر مغربین کے درمیان درس و تعلیمات آل محمد؊ میں مشغول ہونا ، عشاء کے بعد نماز وتیرہ اور زیارت امام حسینؑپڑھنا پھر حرم میں داخل ہونا اسکے بعد چند لقمہ غذاکا نوش فرمانا پھر درس کے لئے مطالعہ کرنا ،رات سے تیسرے پہر احکام الٰہی کی پابندی کرنا پھر گھر میں داخل ہونا اور سو جانا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا سونا تمام لوگوں کے سونے سے افضل ہے اور شعائر اسلام کی حفاظت اور اس کے قیام میں ان سے زیادہ محکم و مستحکم کوئی نہیں لیکن ایک گروہ ان کو سونے نہیں دیتا تھا ان کے حجرات اور کمروں کے پیچھے سے ان کو آواز دیتے تھے لڑکیوں کی شادی کی بیاہ ، میتوں پر نماز میت پڑھنے کے لئے برات میں جنگانے اور آواز دیتے تھے وہ تھکے مارے علیل و بیمار حالت ہی میںگھر سے نکلتے تھے اور ان امور کو انجام دیتے تھے۔ آ پ راہ میں آہستہ آہستہ قرآن کی تلاوت کرتے رہتے تھے ۔

03- ان کی نیک عادتوں میں ایک بہترین عادت مریض کی عیادت کرنا ،بلکہ مریض کی عیادت کو اپنا فرض سمجھتے تھے حتی اگر کوئی بیمار نہیں ہے اور بیماری کوظاہر کر رہا ہے تب بھی اسکے دیدار کے لئے جاتے تھے اور کوئی غریب پڑوسی مریض ہوتا اوراسے ہیضہ، کارلہ ہوتا اور کوئی اسکی خدمت کے لئے نہیں جاتا تو ان کوقلق ہوتا اورمریض کے پاس دو زانو روئے زمین پربیٹھ جاتے اور دوا کو اپنے ہاتھوں سے کوٹتے ،نرم کرتے، پاؤڈر بناتے اور اس کو شہد میں ملاتے اور اپنے گھرسے گلاب کا پانی منگواتےتھے اس کے بعد مریض کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتے۔

اور اگر کوئی دنیا سے چلا جاتا تو غسل و کفن کرتے ،اس پر نماز پڑھاتے اور تدفین کے امور بجا لاتے۔گر مال و متاع نہیں ہے تو مال کے ذریعہ مدد کر کے اور ان کو صحیح راستے پر چلنے کی ہدایت کرتے تھے ۔

04- ان کی پاکیزہ عادتوں میں نیک عادت یہ تھی کہ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تھے تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے تھے اور ذکر و دعا میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اپنے بزرگوں ، اباء و اجداد، بھائی بہن اپنے بچوں اور اعزاء اقرباء ، دوست و احباب مومنین و مومنات اور پھر اپنےاطراف و جوانب متوجہ ہوتے تھے اپنی دُعا میں ان کو شریک قرار تھے اور بہت کم ہیں جو اپنے اساتیذاورطلاب کے لیے دعا کرتے ہیں یہ دعا نہیں شفا ہے۔

05- نیک عادتوں میں ایک بہترین عادت یہ ہے کہ جب وہ نماز ظہرسے فارغ ہوتے تھےتو اپنے بھائیوں کی جانب متوجہ ہوئے،ان کے سامنے روز مرہ کے پیش آتے مسائل کا حل بیان کرتے ان کی منزلت اور عظمت بیان کرنے کے بعد یہاں تک بات مکمل ہو جاتی جس طرح سے چاند ماہ کامل بن جاتا ہے اور اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے برا در ایمانی اور اسلامی کو ادب و اخلاق سکھانا ، ان کو وعظ و نصیحت کرنا ایک بڑاعظیم اور سب سے زیادہ سخت کام ہے۔ اس لیے کہ والد اپنے بیٹے کے ساتھ رہتاہے اور بیٹے اپنے والد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔لہذا ان کے ادب و احترام اورعزو شرف کے ساتھ ان کو وعظ و نصیحت کرنا ادب و تہذیب سکھاناضروری ہے۔

06-ان نیک عادتوں میں سے ایک عادت بلند آواز میں گفتگو اور بات چیت اور واضح الفاظ میں بولنا ، حقیقت کو اجاگر کرنا، تعجب کے ساتھ ذکر کرنا وعدہ کر کے وفا کرنا ، ابتداء سےانتہا تک بیان کرنا مقصد اورہدف معین کرنا یہاں تک الفاظ و معانی اور مطالب اور مراد میں غلطیاں نکالنے والوں کے لئے کوئی سوال نہ چھوڑنا ،مال و ثروت میں لالچ کرنے والوں کو کوئی موقع نہ دنیا، اسلئے کہ یہ لوگ ان کے علم وہنر کی عظمت و جلالت پہچانیں ان سے عہد و پیمان کریں ان پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں کیونکہ بعض لوگ بعد میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا وفانہیں کیا اور جھوٹ کی نسبت نہیں دیتے تھے تو جس طرح کا وہ سوال کرتے اور اپنی حاجت بیان کرتے تھے وہ ان کو عطا کرتے تھے ۔ لہٰذاجو کچھ وہ عمل کی صورت میںانجام دیتے تھے اسمیں وہ لوگ جھوٹ کی نسبت نہیں دیتے تھے اور ان کے انتہائی لطف و کرم کی وجہ سے نا کام ہو جاتے اور اپنی مراد تک نہیں پہنچتے تھے۔ نعمتوں کو عطا کر کے ان کے سوالوں اور حاجتوں کا جواب دیتے تھے۔

07- ایک نیک عادت یہ تھی کہ کوئی کرائے پر مکان لینا چاہتا تھا وہ اسکی مد و نصرت کرتے ،کوئی امانت رکھتا تو اماتنداری کرتے ، کسی نے حاحت طلب کیا تو جود و سخاوت کا باب کھول دیتے کسی نے کوئی فائدہ چاہا اس کو فائدہ پہنچاتےاور جب فائدہ پہنچاتے تو سخاوت کے ساتھ پہنچاتے اور دوبارہ آتا تو دوبارہ اسی انداز میں عطا کرتے۔ جب کوئی خطا یا غلطی کرنا تو خود عذر خواہی اور معافی طلب کرتے اور جب کوئی عذر پیش کرتا تو وہ اسے معاف کر دیتے تھے۔

08-ان کی نیک عادتوں اور صفتوں میں سے ایک عادت اورصفت یہ تھی جب کہ کوئی انکی جانب متوجہ ہوتا تو وہ صمیم قلب اور دل و جان کے ساتھ متوجہ ہوتے اور بات چیت کرتے تھے حاضرین میں ہر شخص یہ گمان کرنا کہ وہ ہر ایک کے دکھ و در دسننےاور اسکی حاجت روا ئی کرنے کے لئے ہی مخصوص ہیں، اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ان کا فضل و عطا عام تھا، کمزور غریب ، حاجت مند ہمیشہ اس طرح ہاتھ پھیلا ئے رہتے جیسے ان کے سواء ان کا شفیق اور کوئی نہیں ہے ۔

09- ان کی عادتوں میں سے ایک عادت یہ تھی کہ وہ دروازے پر آنے والے کے لئے حاجت میں مانع نہیں ہوتے ، شوق دیدار میں آنے والے زائر کو منع نہیں کرتے تھے، طلب کرنے والے سائل کو دور نہیں کرتے تھے بر خلاف بعض علماء وفقہاء جو اپنے سے کمتر سے ملنا پسند نہیں کرتے ہیں ان کو دولت و شہرت کا غرور رہتا ہے وہ ایسے نہیں تھے بلکہ فضل و بخشش کے ساتھ ساتھ عین تواضع وانکساری کا مجسمہ تھے۔

10- ان کی ایک عادت نماز کے بعد لوگوںسے پہلے مصافحہ کرناہے اور جب مجمع بڑھ جاتا اور لوگوں کا ہجوم ہو جاتا تو وہ کہتے ہیں ’’ اللہ ہم کو اور آپ سب کو معاف کرے ، ہمارے اور آپ سب کے اعمال کو قبول فرمائے ،میں اپنی دعا میں ایسے ہی رغبت اور آرزو رکھتا ہوں ا س لیے وہ زیادہ تر مصافحہ میں اپنا داہا ہاتھ بڑھاتے تھے ۔

11-انکی نیک عادت پانی پیتے وقت سید الشہداء حسین ابن علی؊ اور اس کا نام لینا، امام حسینؑاور اہلبیت ؊پر درود وسلام بھیجنا ، ان کے قاتلوں اور دشمنوں پر لعنت کرنا اور جب وہ خوش ہوتے تو کہتے ’’پروردگار مجھے دشمنوں ، اور نفرتوں سے دور رکھنا ۔‘‘ جب قبروں کے درمیان سے گزرنے تو سورۂ حمد در سورہ قدر کی تلاوت فرماتے ، جب ان سے کوئی کہتاکہ یہ مومن کی میت ہے تو اللہ اس پر رحمت نازل فرمائے ‘‘ کہتےتھے ۔ جب دوست احباب کا عمل ان کو تعجب میںڈالنا تو ’’ماشاء اللہ ‘‘ کہتے، اور جب مخالف اور دشمن ائمہ دین کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرتا تو’’ العیاذ باللہ‘‘ کہتے جب کبھی نبیﷺ کا ذکر ہوا یا حضرت کا نام آیا تو صلوۃ پڑھتے اورجوان سے ملنے آتا تو پہلے سلام کرتے اور اسکے ذہن و دماغ اور حالت کے مطابق اس کے سوال کاجواب کریتے۔جب دوستوں میں سے کوئی مریض ہوتا تو اسکی عیادت کرتے اور کوئی دنیا سے رخصت ہو جاتا تو اسکی نماز پڑھے، تجہیز و تدفین کرتے، جو کسی گرفتاری سےجھٹکارا چاہتے تھے تو انہیں جھٹکارادلاتے جوآواز دیتا اسکی اجابت کر تے جب وعدہ کرتے تو وفا کرتے جب کوئی ظلم کرتا تو وہ اسے معاف کر دیتے جب کسی کام کے انجام دینے کا ارادہ کرتے تو پہلے استخارہ دیکھتے اور جب استخارہ آجاتا تو وہ اس عمل کو نہیں چھوڑتے جب کوئی قصہ سناتا خبر دیتا تو غور سے سنتے اور جب وہ کسی مصیبت کی خبر سنتے تو’’ انا للہ وا یا الیہ راجون پڑھتے تھے۔

12-ان کی ایک عجیب و غریب نیک عادت جب وہ کسی سے بات کرتے میں مصروف ہوتے تو دوسرے تک بات ظاہر نہیں ہوتی تھی اور کوشش یہی کرتے تھے کہ اس کے شغل کے مطابق گفتگو جاری رکھیں واضح اور مختصر کلام میں بات مکمل کریں تا کہ دوسرے کلام کرنے والوں کی ملامت کا شکار نہ بنیں ، اسلئے وہ اپنے ساتھی کو کلام ختم ہونے تک خاموش رکھتے تھے ۔ اور یہ تو ہم بتا بھی نہیں سکتے کہ ان کو اپنی باتوں اور کلام پر کتنا یقین حاصل تھا۔جب بات کو درمیان میں چھوڑ دیتے تھے تاکہ وقت ضائع اور برباد نہ ہو تو‎بعد میں کسی وقت بات کو مکمل کرتے تھے اگر کسی کو خاموش کیا توان کو معلوم تھا کہ اسکی بات کا برا اثر پھیلے گا اس نکتہ کی جانب بہت کم لوگ متوجہ ہوتے تھے ۔

نیک اخلاق

01- ان کے نیک اخلاق کے بارے میں کیا کہنا جیسا کہ بعض دُعاؤں ، صحیفوں، اور عارفوں کے کلام میں ملتا ہے : -1- دوسروں کے عیبوں کو چھپانا ہے۔2- نرم لہجے میں گفتگو کرنا۔3- اپنے شانوں کو ادب اور انکساری کے لیے جھکانا ہے ۔4-فضا اور ماحول میں سکون برقرار رکھنا ۔5- لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا ۔6- نیکی اور فضیلت کی جانب سبقت اور پہل کرنا ۔7- کار مَذَلَّت کو ترک کرنا۔8- نیکیوں پر شکر اداکرنا۔9- برائیوں پر غصہ ہونا۔10- بزرگوں کی بات کرنا ۔11-بچوں پر رحم کرنا ۔12-جس نے قطع رحم کیا ان کو چھوڑ دیا اس پر صلہ ٔرحم کرنا، جس نے ان کو منع کیا محروم رکھا اسے عطا کرنا ۔انکی نیک صفت اور اخلاق کا ایک نمونہ غدیر کے روز کا روزہ رکھنااور اسکے علاو ہ وارد شدہ تمام ایام میں صوم وصلات کا پابند ہونا۔ جن دنوں میں مستحب ہے روزہ رکھنا، روزہ رکھتے جن دنوں میں مستحب نمازہے، نمازبڑھتے تھے اور وہ ہمیشہ روزہ ہی رہتے تھے حتی بعض بیماری کی حالت میں بھی روزہ رکھتے تھے۔ انکی نیک عادت کا نمونہ مزاح و مذاق کرنا اسکے باوجود ہشاش و بشاش رہنا ہے کبھی بے کاربیہودہ کام نہیں کیا کبھی کسی سے ناگواری سے رخ نہیں موڑا ۔

آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقویؒ عابد شب زندہ دار
تحریر: محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری

...............

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • سید نقی رضا نقوی IN 17:40 - 2024/01/30
    0 0
    نیک صفات کے علاوہ اور کوئی جانکاری نہیں۔ کی کہاں اور کب پیدا ہوئے کہاں تعلیم حاصل کی کہاں رہے کہاں انتقال ہوا اور کہاں اُنکی مرقد ہے۔