۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
شهید مطهری

حوزہ/ شہید مطہری ایک دور اندیش اور مستقبل پر نظر رکھنے والے مفکر تھے ۔ کوئی بھی کام بغیر سوچے سمجھے انجام نہیں دیتے تھے ، ہمیشہ غور و فکر کیا کرتے تھے۔ اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ کس کام میں کس وقت کس سے اور کس طرح کام لیا جائے ، کس گروہ سے کام لینا چاہیے اور کس گروہ سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اسی وجہ سے آپ کی ایک صفت یہ تھی کہ آپ مستقبل کے حادثات کے بارے میں مطمئن رہتے تھے۔

تحریر: بشری علوی

مقدمہ:
حوزہ نیوز ایجنسی
شہید آیت اللہ مرتضی مطہری بلند پایہ شخصیات میں سےہیں۔ جنہوں نے اسلام ومسلمین کےلئے اہم کردار ادا کئے ہیں۔ آپ علم و عمل میں اعلی درجے پر فائز تھے۔ ایک عالم باعمل ہونے کے ساتھ ایک ماہر استاد ومفکر بھی فکر تھے۔اپنے علم و فکر سے دشمنوں کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ ان کے پشت پردہ سازشوں سے پردہ ہٹا کر ان کو بے نقاب کیا۔
شہید مطہری کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو خدا کے حقیقی عاشق تھے۔ اور دین کے حقیقی پیروکار تھے ۔ آپ ہمیشہ اپنے دوستوں کو بھی دین پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کرتے اور جو خود عمل کرت تھے۔

شہید مطہری کی بہت سی خصوصیات ہیں جن پر ہم اپنی زندگی میں عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔مگر یہاں چند نمایاں اوصاف پیش کریں گے۔۔

1۔شہید مطہری اخلاص کاپیکر
اخلاص ایک ایسا اکسیر ہے ، جس کے ذریعہ عبادت ، خدا کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لائق بن جاتی ہے ۔ جس عمل میں اخلاص پایا جائے ، خدا اسے جلدی قبول اور حکمت کے دروازے کھول دیتا ہیں۔
رسول خدا ص سے روایت ہے کہ:
"اگر کوئی بندہ اپنے عمل کو چالیس روز تک صرف و صرف خدا کے لیے انجام دے تو اس کے قلب و روح سے علم و حکمت کے چشمے نکل کر زبان پر جاری ہوجائیں۔۔۔۔۔۔"
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
"اخلاص ایک ایسی دانشگاہ ہے کہ چالیس روز ہی میں انسان کو فارغ التحصیل کرکے سند حکمت عطا کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔"(1)
جب انسان مخلص ہوتا ہے تو خدا قرآن مجید میں اس کی یوں تعریف کرتا ہے:
"اے پیغمبر اس کتاب (قرآن) میں موسی کا تذکرہ کرو! اس لئے کہ وہ ایک مخلص بندے ،رسول اور نبی تھے" (2)
شہید مطہری، اولیاء اور انبیاء کی سیرت کے مطابق خلوص کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ، آپ کہتے کہ: کام کو اپنے لئے کرنا نفس پرستی ، دوسرے انسانوں کے لئے کرنا بت پرستی ، اپنے اور دوسرے سب کے لئے کرنا شرک اور صرف اور صرف خدا کے لیے کام انجام دینا توحید اور خدا پرستی ہے ۔
آپ کہتے تھے کہ کام ہونا چاہیے نام چاہے کسی کا بھی ہو۔
حسینہ ارشاد میں ڈاکٹر شریعتی کے آجانے سے جوانوں کے درمیان آپ کی شہرت پر کافی اثر پڑا تھا لیکن آپ اس کی فکر نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کا پورا ہم و غم یہی تھا کہ اسلامی افکار لوگوں تک منتقل ہونی چاہئیں ، چاہے کسی کے بھی ذریعہ ہوں۔

2۔شہید مطہری عا شق نماز :
شہید مطہری نماز کے معاملے میں بہت سنجیدہ تھے۔ ہمیشہ اول وقت نماز ادا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اول وقت نماز پڑھنے کی تاکید کرتے تھے۔ شہید مطہری نماز کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے ، چاہے کتنا بھی ضروری کام ہو ، اگر نماز کا وقت ہوگیا تو اسے فورا ترک کردیتے تھے۔
نماز کو پورے خضوع و خشوع اور اس کے تمام آداب کے ساتھ بجالاتے تھے۔اپ گھر کے لباس میں نماز نہیں پڑھتے خاص طور سے صبح کی نماز عام لوگ سونے کے لباس ہی میں پڑھ لیتے ہیں ، لیکن استاد مطہری عبا قبا پہن کر اور عمامہ لگا کر نماز پڑھتے تھے، تاکہ پوری آمادگی اور اہتمام کے ساتھ نماز ادا کی جاسکے اور یہ محسوس نہ ہونے پائے کہ نماز ایسے ہی ایک معمولی کام ہے۔
استاد مطہری واجب نمازوں کے علاوہ نوافل کا خاص خیال رکھتے تھے ، خاص طور سے نماز شب کا اور نماز شب کی آہ و زاری گریہ اور مناجات کے ساتھ ادا کرتے اور نماز شب کے وقت اپنے دوستوں کو یہ کہہ کر جگاتے تھے:
"سوئیں نہیں اس سے شیطان خوش ہوتاہے۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای مد ظلہ فرماتے ہیں کہ:
"یہ شخص آدھی رات کو آہ و زاری کے ساتھ نماز شب پڑھتا تھا اور اس طرح گریہ کرتا تھا کہ اس کی آواز سے لوگ نیند سے بیدار ہوجاتے تھے." (3)
آپ کے ایک دوست نقل کرتے ہیں:
"آپ نماز شب ، ذکر خدا میں ، شب بیداری اور خدا سے راز و نیاز کے بہت پابند تھے ۔شروع ہی سے مجھے نماز شب کی تاکید کرتے تھے ۔ کہتے تھے کہ "نماز شب سے انسان میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور روح کو تازگی ملتی ہے ." میں یہ بہانہ بنا دیتا تھا کہ مدرسہ کے حوض کا پانی گندہ اور کھارا ہے اس سے میری آنکھوں کو نقصان ہوتا ہے ۔ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھے بیدار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے میں عثمان بن حنیف مولائے کائنات کا نمائندہ ہوں ، مولا نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اٹھو اور نماز شب پڑھو، اور یہ یہ خط تمہارے لئے دیا ہے۔ میں نے اس خط کو کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا: (ھذہ برائۃ من النار یعنی یہ جہنم سے نجات کا پروانہ ہے)۔
اچانک میری آنکھ کھل گئی تو میں نے دیکھا کہ شہید مطہری مجھے جگا رہے ہیں ، ان کے ہاتھ میں پانی کا ایک لوٹا ہے ۔آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں "اٹھو اور آج تمہارا یہ بہانہ نہیں چلے گا اس لیے کہ یہ پانی میں نہر سے بھر کر لایا ہوں ۔

3۔مضبوط ومحکم ارادہ:
دینی اقدار کی بقا میں ثابت قدمی خدا کے خاص بندوں کے عزم محکم اور قوی ارادہ کی دلیل ہے،۔ جب تک کوئی ثابت قدم نہ ہو وہ کبھی بھی اپنے ہدف کو حاصل نہیں کرسکتا۔
اسی طرح شہید مطہری کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ قرآن اور اسلام کی حمایت میں پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آجاتے تھے، آپ کو اسلام کے بارے میں کسی بھی طرح کا انحراف برداشت نہیں تھا ، ملحدانہ اور منافقانہ فکر کے مقابل اپنے پورے وجود کے ساتھ ڈٹ جاتے تھے۔ اور کبھی اپنے ارادہ کو کمزور نہیں پڑنے دیتے۔۔
ایک بار اپنے دوستوں سے فرمایا: میں ان منافقوں سے مقابلہ کروں گا ، ممکن ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کردیں لیکن مجھے جو کہنا ہے وہ کہتا رہوں گا اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ اسلام کے لئے خطرناک ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پمفلٹ نکالتے رہیں اور ان لوگوں کے بارے میں دینی نظریہ لوگوں کے سامنے واضح کرتے رہیں ۔(4)
استاد مطہری دوغلے قسم کے حریت پسند افراد کی ان حرکتوں کے سامنے پوری قوت اور مضبوطی کے ساتھ ڈٹ گئے جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے اوائل ہی میں اس انقلاب کی اسلامی صورت کو مسخ کرنے کی غرض سے انجام دی جارہی تھیں ، اس سلسلے میں آپ کو مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اذیتوں کا بھی لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی ۔

4۔شہید مطہری کی دور اندیشی
شہید مطہری ایک دور اندیش اور مستقبل پر نظر رکھنے والے مفکر تھے ۔ کوئی بھی کام بغیر سوچے سمجھے انجام نہیں دیتے تھے ، ہمیشہ غور و فکر کیا کرتے تھے۔ اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ کس کام میں کس وقت کس سے اور کس طرح کام لیا جائے ، کس گروہ سے کام لینا چاہیے اور کس گروہ سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اسی وجہ سے آپ کی ایک صفت یہ تھی کہ آپ مستقبل کے حادثات کے بارے میں مطمئن رہتے تھے ، آپ انقلاب کے سلسلے میں بھی ہر کسی سے مدد لینے کے قائل نہیں تھے ۔اپ کہتے تھے کہ ہمارا مقصد شاہ کو ایران سے بھگانا نہیں ہے بلکہ اسلام کو رائج کرنا ہے ، لہذا ایسے لوگوں کو اپنے سے دور کرنا چاہیے جو بظاہر تو ہمارے موافق ہوں لیکن در حقیقت اسلامی انقلاب کے بعد بھی اسلامی قوانین کا اجر نہیں ہوپائے گا اور بے دین لوگ یہ نعرہ لگاتے پھریں گے ہم نے انقلاب برپا کیا ہے ، اس بارے میں آیت اللہ مہدوی کنی فرماتے ہیں: استاد مطہری دس سال کی بات کو ہم سے پہلے سمجھ لیتے تھے (5)۔
امام خمینی کے بعد جس نے سب سے پہلے منافقوں اور مارکسیٹوں کی جماعت کی حقیقت کو جانا وہ شہید مطہری ہی کی ذات تھی آپ اسلامی معارف نئے مکاتب فکر ع مختلف گروہوں کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرتے تھے ، اسی وجہ سے آپ نے سب سے زیادہ ان لوگوں کو پہنچانا ، کیونکہ آپ نے ان لوگوں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا تھا سوچ ان کے مقاصد سے واقف تھے ۔
آپ کی دور اندیشی ذہانت اور مستقبل پر نظر کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے دوستوں کو مہدوی ہاشمی سے خبردار رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے اور یہ کہتے تھے یہی شخص "مرحوم شمس آبادی"کا قاتل ہے ۔کئی سال بعد اس کی حقیقت کھل کر سامنے آئی اور وہ پکڑا گیا ، اس کا جرم ثابت ہوگیا اور پھانسی پر چڑھایا گیا ۔
خلاصہ یہ کہ آپ دوسروں سے جلدی خطروں کو بھانپ لیتے تھے جس کے نتیجے میں پہلے ہی سے ان سے مقابلہ کرنے کی پلاننگ بنالیتے تھے ۔

نتیجہ
شہید مرتضی مطہری کے اندر وہ تمام خصوصیات جمع تھی، جن کی قرآن و سنت نے تاکید کی ہے۔ ایمان، اخلاص، عمل صالح، بابصیرت، باصلاحیت، شجاعت، دیانت، دلیری، حکیم، مبلغ، مجاھد، شہادت سے عشق، تقوی و پرہیز گاری یہ تمام خصوصیات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آج بھی اگر کوئی جوان اسلام کو اس کی گہرائی سے سمجھنا چاہے تو آپ کے علمی آثار اور کتب آپ کی جگہ ہمارے درمیان موجودہے۔ جس کی تاکید امام راحل اور رہبر حکیم نے بار بار کی ہیں۔۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ شہیدمطہری کے آثار سے رہنمائی لیتے ہوئے ان کو اپنا علمی ، فکری، معنوی استاد بنائیں۔

حوالہ جات:
1۔ اسرارِ نماز
2۔ سورہ مریم ، آیت : 51
3۔ مثالی لوگ / شہید مطہری ص,57
4۔ شہید مطہری ص,۔ 60
5۔ شہید مطہری

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .