۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی

حوزہ/ شہید الحاج جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی ایسے عالم میں منائی گئي کہ ان کا نام اور ان کی یاد، عالم اسلام میں پہلے سے زیادہ پھیل چکی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر جنرل حسین سلامی سے گفتگو کی ہے جس میں مقدس دفاع سے لے کر بغداد ائيرپورٹ پر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت تک ان کی مجاہدانہ زندگی اور ان کی شہادت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

سوال: شہید قاسم سلیمانی کی ایک نمایاں خصوصیت، کبھی نہ تھکنا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف اور شہید سلیمانی کے اقدامات سے آگہی رکھنے والے شخص کی حیثیت سے آپ شہید سلیمانی کے بلا وقفہ جہاد کے بارے میں کچھ بتائيے۔

جواب: قاسم سلیمانی کا شاہکار یہ تھا کہ جنگ کے دوران وہ فورس تشکیل دے دیتے تھے۔ یعنی جنگ ہو رہی ہے، دشمن سرزمین میں ہے اور قاسم سلیمانی کو یہیں مسلح سپاہی اور فورس بنانی ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت ایسے عالم میں جب دشمن ہر جگہ پھیل چکا ہے اور محسوس کر رہا ہے کہ وہ آخری قدم اٹھا رہا ہے، آپ اچانک ہی پورا منظر بدل دیتے ہیں، پورے میدان کو الٹ دیتے ہیں، خود اعتمادی پیدا کر دیتے ہیں اور طاقتور ڈھانچہ تیار کر دیتے ہیں تاکہ میدان کو الٹ سکیں۔ یہ صرف ایک میدان یا ایک محاذ نہیں تھا، ایک ساتھ سارے میدان (لبنان، شام، عراق، یمن وغیرہ) متحرک ہو گئے تھے۔ ان تمام میدانوں کو ایک ساتھ سنبھالنا واقعی بہت سخت ہے۔ شہید سلیمانی رات دن لگے رہتے تھے اور لگاتار ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتے رہتے تھے۔

کبھی نہ تھکنے کی یہ صفت، ان کی ذات میں بھی تھی اور ان کے کام کی ضرورت بھی تھی کیونکہ اگر وہ انتھک محنت کرنے والے نہ ہوتے تو میدان میں پیچھے رہ جاتے اور یہ سارے کام انجام نہیں دے سکتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے کچھ ہی برس میں اور جنگ کے دوران، کئي مضبوط دفاعی فورسز تیار کیں۔ قدس فورس کا کمانڈر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ وہ ایران کے عوام کا بھی خیال رکھتے تھے اور امت اسلامی کا بھی؛ واقعی وہ ایسے ہی تھے۔

سوال: یقینی طور پر آپ کے ذہن میں شہید قاسم سلیمانی کی بہادری، شجاعت اور تدبیر و حکمت عملی کے بے شمار نمونے ہوں گے۔ میدان جنگ میں ان کی تدبیر اور عقلانیت نے انھیں ایک عالمی فوجی اسٹریٹیجسٹ بنا دیا تھا، یہاں تک کہ دشمن بھی شہید سلیمانی کی اس خصوصیت کا اعتراف کرتے تھے۔

جواب: وہ جذبات رکھنے والے انسان تھے لیکن جذبات میں بہہ جانے والے نہیں تھے۔ صحیح وقت پر انھیں غصہ آتا تھا اور صحیح وقت پر وہ اپنے غصے کو ٹھنڈا بھی کر دیتے تھے۔ وہ بہت زیادہ غور و فکر کرنے والے انسان تھے، حساب کتاب کرتے تھے، اندازہ لگاتے تھے لیکن ڈرتے نہیں تھے۔ وہ ایسے انسان نہیں تھے کہ غیر ضروری اور فضول باتوں میں اپنے آپ کو پھنسا لیں، غیر ضروری کام کریں، غیر ضروری احتیاطی تدابیر کریں اور بے کار میں کسی چیز سے ڈریں، نہیں! حقیقت میں وہ بند دروازوں کو کھولنے والے تھے۔

مقدس دفاع کے دوران وہ جو آپریشن کیا کرتے تھے، انھیں پوری تیاری سے انجام دیتے تھے اور وسائل کا بخوبی استعمال کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب وہ اروند ندی کو پار کرنا چاہتے تھے تو ندی کے مد و جزر کے اوقات سے متعلق سارے کیلکیولیشن انجام دیتے تھے تاکہ تیراکوں کے ندی پار کرنے کا سب سے اچھا وقت جان سکیں۔ ایک انسان کی جان بچانے اور کم سے کم جانی نقصان کے لیے وہ دسیوں کیلکیولیشن کرتے تھے۔ واقعی وہ پہلے غور کرتے تھے اور پھر اپنی یونٹ کو میدان میں لاتے تھے تاکہ ان کے سپاہیوں کو کم سے کم نقصان پہنچے اور دشمن غافل رہ جائے۔ اسی لیے والفجر8 آٹھ آپریشن میں دشمن کو پتہ ہی نہیں چلا کہ انھوں نے اور ان کے قریب موجود یونٹس نے کس طرح کام کیا۔ دشمن پوری طرح غافل رہا۔ دشمن کو غافل رکھنے کے لیے بہت صحیح کیلکیولیشن اور پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی آپریشن میں شہید قاسم سلیمانی بڑی سرعت سے اروند ندی میں تیر کر خور عبداللہ تک پہنچے۔ وہ بالکل تازہ دم تھے اور پوری طرح متوجہ تھے کہ اپنے سپاہیوں کو کھانے کے لیے کیا دیں اور انھیں نفسیاتی طور پر کس طرح حملے کے لیے تیار کریں۔ اپنے تمام کاموں کے لیے ان کے پاس پروگرام تھا اور وہ بذات خود تمام مسائل پر نظر رکھتے تھے۔ جب تک وہ یقین کے مرحلے تک نہیں پہنچ جاتے تھے، کوئي عمل انجام نہیں دیتے تھے۔ اسی لیے وہ کامیاب رہے اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے، وہ آخر تک کام کرتے رہے کیونکہ انھیں، شہید سلیمانی کی دانشمندی پر بھروسہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قاسم سلیمانی بغیر حساب کتاب کوئي کام نہیں کرتے اور کسی کو فضول میں خطرے میں نہیں ڈالتے۔ شہید سلیمانی کی شخصیت، جتنا زیادہ کمال تک پہنچتی جا رہی تھی، اتنا ہی ان کے وجود کے نئے نئے زاویے نمایاں ہوتے جا رہے تھے۔

سوال: آج کے حالات بتاتے ہیں کہ شہید سلیمانی دشمن کے لیے جنرل سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں۔ آپ نے بھی کبھی کسی جگہ کہا تھا کہ شہید سلیمانی کے نام اور ان کی یاد کا خطرہ، ان کی جسمانی موجودگی سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا ہوا کہ قاسم سلیمانی نے یہ کامیابیاں حاصل کیں؟

جواب: جب شہید قاسم سلیمانی زندہ تھے تو ہم ایک جنرل سلیمانی کو پہچانتے تھے لیکن جب وہ شہید ہو گئے تو وہ انقلاب جو دلوں میں پیدا ہوا، اس نے دلوں میں نیا راستہ کھولا، نوجوانوں کی شخصیت پر اثر ڈالا اور پھیلنے لگا تو ایک قاسم سلیمانی، کروڑوں قاسم سلیمانی بن گئے اور اس وقت وہ سب انتقام کی بات کر رہے ہیں۔ تو وہ زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس وقت انتقام ایک اسٹریٹیجی، آرزو، ہدف اور محرک میں تبدیل ہو گيا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد جہاد کی طرف نوجوانوں کا رجحان زیادہ بڑھ گيا ہے۔ یہ دشمن کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے۔ جب بھی ہم موت سے نہ ڈریں، ہم خطرناک ہیں۔

الحاج قاسم سلیمانی کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ میدان میں اپنے آپ کو 'ولایت' کا سپاہی سمجھتے تھے۔ ان کی شہادت سے پہلے بھی اور شہادت کے بعد بھی جو کامیابیاں حاصل ہوئي ہیں وہ، ان کی جانب سے ولی فقیہ کی پیروی کے سبب تھیں۔ میں اگر ایک جملے میں کہنا چاہوں کہ ہمارے عہدیداران کو کس طرح شہید قاسم سلیمانی کی طرح بننا چاہیے اور کس طرح بہترین طریقے سے ولی فقیہ کا مکمل تابع ہونا چاہیے تو میں کہوں گا کہ انھیں، رہبر انقلاب اسلامی کے ہر لفظ پر عمل کرنا چاہیے۔ انھیں یقین رکھنا چاہیے کہ ان سب کا انجام، شہید قاسم سلیمانی جیسا ہی ہوگا۔ ان کا راز یہی ہے۔ باقی چیزیں اسی کے تابع ہیں؛ یعنی اخلاص، صداقت، شجاعت، بہادری، مشن کے لئے ہجرت کا رجحان، شہادت کا عشق، جہاد، یہ سب ولی فقیہ، امام، رہبر اور ولی امر کی اطاعت سے حاصل ہوتے ہیں۔ بلکہ اگر ہم شہید قاسم سلیمانی کی توفیقات کا راز جاننا چاہیں تو یہ کہنا ہوگا کہ وہ اطاعت میں کامیاب تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .