۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 375950
4 جنوری 2022 - 08:24
سویرا بتول 

حوزہ/ شہادت فخر ہے لیکن مقصد نہیں۔مقصد اور ہدف صرف اور صرف پروردگار کی اطاعت ہے۔اگر اِس کی رضا شہادت میں ہے تووہ فخر ہےاور اگر اُس کی رضا زندہ رہنے میں ہےتو زندگی کو موت سے بچانا ضروری ہے۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسیجنابِ سیدہ فاطمہ زہرإ سلام علہیا کی شہادت کے ایام کوایامِ فاطمیہ کہاجاتا ہے اور یہ ایام بہت سی نسبتوں کی بنإ پر نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ام الشہدإ جناب زہراسلام علہیا کی عنایات ہر خاص و عام کے لیے یکساں ہیں۔یہ اس در کا لطف و کرم ہے کہ یہاں کوٸی بھی سوالی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔شہداٸے اسلام اور شہداٸے مدافعینِ حرم کو جنابِ زہرا سلام علہیا سے خاص قسم کا انس اور عقیدت حاصل ہے پھر چاہے وہ شہید ابراہیم ہادی ہوں، شہید حاج قاسم یا شہید ابراہیم ہمت وغیرہ۔شہید عبدالحسین برونسی کی داستان سب اہل فکر افراد کے لیے قابلِ مطالعہ ہے۔شہید عبدالحسین برونسی کو جناب زہرا سلام علہیا سے ایک خاص قسم کی عقیدت تھی۔شہید کی ہمسر نقل کرتی ہیں کہ بار شہید بہت دیر سے گھر آۓرات کو سب سوٸے ہوٸے تھے کہ کسی کی آواز آنے لگی میں نے غورکیا تو شہید کی آواز تھی وہ خواب میں کسی سے بات کررہے تھے اور بول رہے تھے"یا زہرا"۔میں نے اُن کو جگانے کے لیے تین چار بار آواز دی لیکن وہ بیدار نہیں ہوٸے وہ اپنے حال احوال میں مصروف تھے۔میں نے شہید کو بیدار کیا لیکن وہ بہت ناراض ہوٸے اور دوسرے کمرے میں چلے گٸےدیکھا کہ شہید دوزانوں پر بیٹھے ہیں اور حضرت زہرا کو آواز دی اور شدت سے گریہ کر رہے تھے۔جب شہید کو تھوڑا سکون ملا تو کہا: مجھے کیوں نیند سے بیدار کیا؟ میں چاہتا تھا کہ جنابِ زہرا سے اپنی شہادت کی اجازت لے لوں۔یہ شہدإ ہماری طرح عام انسان تھے مگر اس قدر تذکیہ نفس کیا کہ جناب سیدہ سے اپنی شہادت کی سندوصول کی یہ عام بات نہیں ہے بلکہ غور طلب موضوع ہے کہ کیسے انسان شب کی تاریکی میں سیدہ سے توسل کرکے اخروی سعادتوں کو یقینی بنا سکتا ہے۔

انسان مراقبہ نفس،مجاہدت اور کوشش سے اُس درجے تک پہنچ سکتا ہے کہ زمین اُس سے کلام کرے۔ شہدإ کے معجزات کو سن کر بعض احباب ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ یہ تعجب خیز بات نہیں کہ زمین انسان سے کلام کرے۔انسان کے اندر خالقِ کاٸنات نے کل کاٸنات کو تسخیر کرنےکی صلاحيت رکھی ہے ،ہمیں تاریخ میں ایک ایسے شہید بھی ملتے ہیں جو زمین سے ہم کلام ہواکرتے تھےاور کہاکرتے تھے کہ انسان تذکیہ نفس کے ذریعے ایسے مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ زمین سے باتیں کرسکے، ہوا سے گفتگو کرسکے اور اِن کے جوابات سن سکے۔کوشش کریں کہ اپنے کسی غلط کام سے خدا کو ناراض نہ کربیٹھیں۔عاشقانِ خدا اس قدر فنا فی اللہ ہوگٸے کہ اپنی شہادت کی تاریخ سے بھی آگاہ تھے۔یہ اِس دور کے بوذر اور سلمان ہیں جنہوں نے راہ ولایت میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔

بعض احباب نالاں نظر آتے ہیں کہ ہر محفل میں ،ہر مجلس میں شہدإ کا ذکر تکرار کے ساتھ کیوں کیاجاتا ہے۔ایک عزیز ہستی ہم سے یوں فرمانے لگے کہ آپ شہدا اور شہادت کے علاوہ کسی اور موضوع کا انتخاب کیوں نہیں کرتیں؟ تکرار کے ساتھ شہادت کا ذکر کیوں کیاجاتا ہے؟کیا کسی امام نے شہادت کی اس قدر آرزو کی جو آپ لوگ ہر وقت شہادت کے ترانے پڑھتے اور خود کو انقلابی ثابت کرتے دیکھاٸی دیتے ہیں۔یہ سوالات یقینا رنج پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ امام موت و شہادت سے نہیں ڈرتے بلکہ راہِ خدامیں شہادت آٸمہ اطہار علیہم السلام کا فخر ہے۔اصل بات یہ ہے کہ شہادت فخر ہے لیکن مقصد نہیں۔مقصد اور ہدف صرف اور صرف پروردگار کی اطاعت ہے۔اگر اِس کی رضا شہادت میں ہے تووہ فخر ہےاور اگر اُس کی رضا زندہ رہنے میں ہےتو زندگی کو موت سے بچانا ضروری ہے جیسے امام مہدی عج کو اللہ تعالی نے عظیم الہی حکومت برپا کرنے اور ظالموں کو مٹانے کے لیے بھیجا ہے اور یہ کام زندہ رہ کر ہوسکتا ہے لہذا امام عج کے لیے اپنی زندگی کو بچانا ضروری ہےاور غیبت زندگی کی بقإ کا بہترین وسیلہ ہے۔

اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے آٸمہ شہادت کے طلبگار نہ تھے۔امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہر جنگ کے بعد حسرت سے اپنی شہادت کے لیے دعا کرتے دیکھاٸی دیتے ہیں اور مختلف مقامات پر شہدا کے مقام ومنزلت کو بیان کرتےدیکھاٸی دیتے ہیں(جنکا ذکر ہم اپنی گزشتہ کٸی تحاریر میں تفصیلاً کرچکے ہیں)۔آٸیے شہادت کے اسرار و رموز شہیدِ زندگار حاج قاسم سلیمانی سے پوچھتے ہیں۔چشم تصور میں دیکھا کہ ایک گوشہ میں زندہ شہید حاج قاسم سلیمانی عشاق الشہدإ کو شہادت کے حوالے سے نصیحت کرتے دیکھاٸی دیتے ہیں، وہ شہادت کا راز یوں بیان کر رہے تھے ”شہادت کی موت دراصل شہادت کی زندگی میں ہے!“ اے شہادت کے مشتاق عزیزو! اگر کوئی (زندگی میں) شہید نہ رہا ہو تو وہ شہادت (کی موت) حاصل نہیں کرتا۔ شہید ہونے کی شرط (زندگی میں) شہید رہنا ہے۔ اگر آپ کسی کو دیکھیں کہ اس کے کلام سے، عمل سے اور اخلاق سے شہید کی بو آرہی ہےتو جان لیں کہ وہ شہید ہوگا۔ ہمارے تمام شہداء اِن خصوصیات کے حامل تھے۔

ابھی شہید قاسم سلیمانی کے جملوں پر غور کر رہی تھی کہ ایک گوشے سے شہید احمد کشوری کی صدا بلند ہوٸی۔شہید اپنے عزیز رفقإ کو نصیحت کرتے دیکھاٸی دٸے۔آپ فرما رہے تھے اے میرے ساتھیو!کوفی نہ بنیں۔امام (ولی فقیہ نائب امام عج) کو تنہا نہ چھوڑیں۔ریلیوں میں پہلے کی نسبت زیادہ شرکت کریں۔دعائے کمیل میں شرکت کریں اپنی اولاد کو آگاہ کریں اور شوق دلائیں کہ وہ راہ خدا میں فعالیت کریں ۔ہرگز نہ بھولیں کہ شہداء آپ کے کاموں کو دیکھ رہے ہیں۔شہدا کی باتوں پر عمل پیرا ہو کر شہدا کی قربانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔

شہید کیا کرتا ہے؟ شہید کی فکر کیا ہے؟ اور کیوں انسان عام موت پر سرخ موت کو ترجیح دے؟ فرض کریں کہ آپ شہید ہوگٸے اور امام زمانہ عج سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو سب سے پہلے آپ اُن سے کیا کہیں گے؟ اِن سب سوالات کو جاننا نہایت مہم ہے۔شہادت کو نقصان یا ہلاکت کے معنی میں لینا ایک انحرافی تصور ہے۔شہادت کا معنی زندہ و جاوید ہے اور شہادت بہترین زندگی ہے۔جو لوگ دوسروں کی ہدایت کے لیے بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کی سعادت کے عاشق ہوتے ہیں وہ بجاٸے اِسکے کہ مرجاٸیں شہید ہوتے ہیں اوریہ شہدا دسرے افراد کو جاوداں قدرت اور سعادت تک پہچانے کے لیے وسیع پیمانے پر مدد کرتے ہیں۔شہید جیتتا ہے،کاٹتاہے اور ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔شہید خود بھی صاحبِ مقام ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی مقام عطا کرتا ہے۔شہید خود بھی روشن ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے راہِ و راستے کوبھی روشن کردیتا ہے کیونکہ شہید کی فکر اور نظریہ تمام انسانيت کی بقا کی ضامن ہے،یہی وجہ ہے کہ شہید کا جسدِ خاکی تو خاک میں مل جاتا ہے مگر شہید کا نظریہ ہمیشہ قاٸم رہتا ہے۔اپنے لیے ایک شہید کا انتخاب کریں اُس کے پیچھے جاٸیں، اُسے پہنچانیں،اُس کے ساتھ رابطہ برقرار رکھیں، اُس کی طرح بن جاٸیں، اپنی حاجت اُس سے لیں، آپ بھی شہید ہوجاٸیں گے۔خدا سے ہر لحظہ دعا کریں کہ خدایا! ہمیں اِن شہدإکے ساتھ، اِن شہدإ کے دسترخوان پر،اِن عظیم لوگوں سے فاٸدہ اٹھانے کی توفیق عطافرما، جنہوں نے اپناپورا وجود تیری رضا کے لیے قربان کردیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .