۲۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۵ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 13, 2024
News ID: 374665
26 نومبر 2021 - 11:41
شہید ناصر صفوی

حوزہ/ شہید ناصر صفوی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں خطروں سے نہیں ڈرتا ،موت سے نہیں بھاگتا ہوں جب طوفان میرے تحمل کی طاقت سے بڑھ جاتے ہیں میں خدا کو یاد کرکے اپنا رنج و غم دور کر لیتا ہوں، مجھے سکون ملتا ہے اور جب کوٸی راہِ نجات نہیں ملتی تو شہادت کے دامن میں پناہ لیتا ہوں اور محکم قدموں اور فولادی ارادے کے ساتھ حسین ع کے نقشِ قدم پہ چلتا ہوں۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسیاسلام دینِ حکمت و منطق ہے۔تمام احکامات اسلامی حکمت ومنطق اور راز ونیاز بشر سے بھرپور ہیں۔فلسفہ شہادت بھی خالقِ کاٸنات کے رازوں میں سے ایک ایساراز ہے جسے عام بشر بامشکل سمجھ پاتے ہیں۔یوں کہاجاۓ کہ یہ راز شہید ناصر صفوی نے باخوبی درک کرلیا تھا اور اسی لیے امام زمانہ عج کے گمنام سپاہی کہلاٸے گٸے تو بےجا نہ ہوگا۔شہید کی برسی پر سارا دن غم ویاس کی تصویر بن کر گزرا۔یوں لگا کہ تمام الفاظ دم توڑ گٸے، ہم حسرت سے یالیتنا کہتے رہ گٸے اور شہدا ہم سب پرسبقت لے گٸے۔

شہادت میں شہید کا مقام صرف قتل ہونے کی وجہ سے اہمیت کا باعث نہیں بنتا۔اس دنیا میں ہرروز کٸی افراد کسی مقصد کے بغیر مفت قتل کیے جاتے ہیں جنہیں عام زبان میں اُن افراد کی بدقسمتی اور تقدیر سے تعبیرکیاجاتا ہےاور اس طرح مرنےسے انہیں کوٸی امتیاز یا افتخار حاصل نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس قسم کی موت ذلت اور حقارت کا باعث بنتی ہے جبکہ اس کے برعکس شہادت رب کاٸنات کا ایسا عظیم تحفہ ہے جس میں انسان تمام خطراتِ زندگی کو جانتے ہوٸے مقصد و ہدف کو بچانے کی خاطرراہِ خدا میں اپنی جان قربان کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فاٸز ہوتا ہے۔شہید ناصر صفوی جانتے تھے کہ اس راہ کے اختتام پر شہادت حتمی ہے اس لیے تمام مصلحتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوٸے یزیدِ دوراں کے سامنے ڈٹ گٸے۔

اولیا خدا یا دوستانِ خدا اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہونے کے عمل کو موت کہتے ہیں۔موت ان افراد کی دیرینہ آرزو ہے اور وہ بےقراری سے اس آرزو کی تکمیل کے مشتاق رہتے ہیں۔بقول امام علی علیہ السلام اگر خداوند عالم اولیا خدا کے لیے موت کا وقت معین نہ فرماتا تو عاقبت کے خوف اور ثوابوں کے شوق میں ان افراد کی روحیں ان کے بدن سے خود بخود پرواز کر جاتیں۔

ان تمام مساٸل کے باوجود دوستانِ خدا موت کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں نہیں رہتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمر ایک فرصت ہے جس میں عبادت اور عملِ صالح انجام دٸیے جاسکتے ہیں اور فرصت جتنی بھی زیادہ ہو اتنے ہی انسانی کمالات اجاگر ہوں گے چنانچہ اس لیے وہ طولِ عمر کے طالب ہوتے ہیں۔لہذا معلوم ہوا کہ اس نکتہ نظر کے مطاق موت کا مشتاق ہونا، موت کی آرزو کرنا،خداوندِ عالم سے عبادت کے لیے طولِ عمر کی دعا کرنا،کسی بھی طرح سے ایک دوسرے سے برخلاف نہیں۔

چنانچہ اسی لیے شہید ناصر صفوی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں خطروں سے نہیں ڈرتا ،موت سے نہیں بھاگتا ہوں جب طوفان میرے تحمل کی طاقت سے بڑھ جاتے ہیں میں خدا کو یاد کرکے اپنا رنج و غم دور کر لیتا ہوں، مجھے سکون ملتا ہے اور جب کوٸی راہِ نجات نہیں ملتی تو شہادت کے دامن میں پناہ لیتا ہوں اور محکم قدموں اور فولادی ارادے کے ساتھ حسین ع کے نقشِ قدم پہ چلتا ہوں۔

اکثر اپنے اہلِ خانہ سے کہا کرتے تھے کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے شہادت سے نوازے، مجھے خوف ہے کہ میرے سر پر سفید بال آگٸے ہیں اور میرے خدانے مجھے ابھی تک اپنے پاس نہیں بلایا کیا میرے گناہ اتنے بڑھ چکے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ موت اگر شہادت کی شکل میں حاصل ہوتو یہ شہید کے لیے ایک امتیاز اور خوشی و خوشحالی کا موقع ہے۔

شہید کی برسی کے موقع پر اُس عظیم ماں کا ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے جسکے سامنے اُسکے لعل کو خون کی ہولی میں نہلایا گیا۔کمرے کے کونے میں بوڑھی ضعیف ماں اپنے جوان بیٹے اور بہو کو خون میں لت پت ہوتے دیکھتی رہیں اور ثانی زہرا کی حقیقی کنیز ہونے کا حق ادا کیا۔کجا اِسکے کہ اُس ضعیف ماں کے سامنے اُسکا لال گولیوں میں بھنا گیا مگر وہ استقامتِ زینبی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے، اپنی ننھی پوتیوں کو سنبھلتے میڈیا کے تمام سولات کا جواب دیتی رہیں۔ایسی ہی شیر دل زینبی کردار ادا کرنے والی خواتين کے حوالے سے رہبرِ معظم کہا کرتے تھے کہ بے شک شہید ہونے والی، دفاع وطن میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والی اور دشمن کے عقوبت خانوں میں جنگی قیدی کی حیثیت سے سختیاں برداشت کرنے والی خواتین افتخار کی بلندی پر فائز ہیں۔

ہمارا سلام ہو اُس ضعیف ماں پر
جسکے حوصلے پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھے
ہمارا سلام ہو زینبی کردار ادا کرنے والی بوڑھی ماں پر
ہمارا سلام ہو شہیدہ پروین بتول پر
راہ امام عج میں قربانی قبول ہو
اے کنیز زہرا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .