تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। وہ سر جهکاٸے تیز تیز قدم اٹهاتی، لبیک یا حسین علیہ السلام کی پیٹیاں سنبهالے اپنے گهر کی طرف روانہ تهی۔وہ ہمیشہ اِس راستے سےگزرتے وقت شدید اضطراب کاشکار ہوجاتی تهی، اس لیے آج اُس نے دوسرے راستے سے جانے کا سوچا۔ آج شب جمعہ تهی اور یہ ایامِ فاطمیہ کے دن تهے اور آج سے چند روز بعد شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی تهی۔ابهی اُسے بہت سارےالہی اور تنظیمی امور کوانجام دینا تها شہید کاجملہ ”ما ملت شہادتیم“ ہروقت اسکے ذہن میں بازگشت کرتا اور وہ ساری رات شہدا سے توسل کرتے گزار دیتی۔ابهی وہ راستہ تبدیل کرنےکا سوچ ہی رہی تهی کہ اُسے شہید مصطفی چمران کی مناجات کی صدا سناٸی دی: ”اے محبوب میرے خدا! تونے ہی میرے سامنے ایک نٸی دنیا کا در کهولاتاکہ میری اچهی طرح آزمائش کرلے۔تونے ہی مجهےحوصلہ دیا کہ پروانہ بنوں، جلوں، نور بانٹوں، عشق کروں، انسان کی بے نظیر قوتوں کا اظہار کروں تاکہ میں ایک جدید، مضبوط اورالہی راستےکا مسافر بن سکوں۔ مظہر بن جاٶں، عشق ہوجاٶں، نور میں تبدیل ہوجاٶں، اپنے وجود سے جدا ہوکرمعاشرے میں تحلیل ہوجاٶں تاکہ اپنے محبوب حقیقی کے علاوہ کسی کو نہ دیکه پاٶں، عشق وفداکاری کے علاوہ اور کسی راستے پر نہ چلوں، موت سے آشنا ہوجاٶں اوراس سے دوستی کرلوں یہاں تک کہ سرخ موت یعنی شہادت کاجام پی لوں “
وہ جانتی تهی جو شہید یہ مناجات کررہا ہے وہ سادہ انسان نہیں ہے۔اُس نے اعلی ترین علمی ڈگریاں حاصل کر رکهی ہیں۔زمانے کی گرد وسرد کا ذاٸقہ چکه چکا ہے۔خوبصوت ترین اور شدید ترین عشق کے مراحل سے گزرچکا ہے۔لذاتِ زندگی کے درخت سے خوشہ چینی کرچکا ہے۔ہرخوبصورت اور محبوب چیزکی لذت لے چکاہے۔اس نے کمال و ثروت کی انتہا تک پہنچ کر ہر چیزکوچهوڑ دیا اور اپنےمقدس ہدف کی خاطر درد آلود اور اشکبار زندگی اور شہادت کو گلے لگا لیا ہے۔
ابهی وہ شہید مصطفی چمران کی مناجات سن کر کچه آگے بڑهی تو ایک مسند پر ایک شہید کو بیٹهے دیکها وہ اپنے ساتهیوں سےیوں مخاطب تهے اے میرے دوستو! جلدی کرو کہ زمین رہنے کی جگہ نہیں، صرف گزرگاہ ہے، نفس سے گزرنا اور خوشنودی خداکیطرف سفر کرنا۔کبهی تم نے سنا ہے کہ کوٸی گزرگاہ پر رہاٸش پذیر ہوجاٸے؟ اور شک نہ کرو کہ موت یہاں سب سے زیادہ تمہارے نزدیک ہے۔میرے ساتهیو! ناامید نہ ہو کہ تمہارے لیے بهی کربلا اور عاشورہ ہے۔جس میں کچه تمہارے خون کے بهی پیاسے ہیں اور کچه عاشقانِ امام انتظارکر رہے ہیں کہ تم خاکی وجود کی زنجیروں کو کهول دواور اپنے آپ سے اور اپنی دلی وابستگیوں سے ہجرت کرواور زماں و مکاں سے بالاتر ہوکر آگے بڑهو اور خود کو سن اکسٹه ہجری کے قافلے تک پہنچاٶ اور امامِ عشق کی رکاب میں اُس لذت اور سرمستی کو محسوس کرو جسے حُر اور حبیب نے محسوس کیا۔
یہ بہشتِ زہرا کا پُرکیف منظر تها جہاں ہر طرف شہدا کے نورانی جسد پهولوں کیطرح بکهرے ہوٸے تهے جو شہادت کے پروں سے پرواز کرتے ہوٸے ذاتِ اقدس کی طرف چلے گٸے لیکن اُن کے خونی جسد یہاں وہاں بکهرے پهولوں کی مانند پڑے تهے۔ وہ ایک گمنام شہید کی قبر پر موجود تهی اِس شہید کو پہلی بار دیکهنے پر لگتا تها کہ یہ دنیا پسند جوان ہوگا لیکن ایسا نہ تها وہ جوان عاشقِ خدا تها جس کی خوبصورت آنکهیں عشقِ خدا میں آنسو بہایا کرتی تهی۔وہ جوان جو مثل حسنِ یوسف حسین تها مگر اپنے حسن کو خاطرمیں نہ لاتے ہوٸے اپنی جان راہِ خدا میں قربان کردی۔
اےشہیدو ہمیں بهی بتاٶ کہ ہم بهی تمہارے راستے پر اپنے قدم رکهیں اور تمہارے جوار میں آجاٸیں۔تم کس مکتب کے موذن ہو کہ تمہاری آنکهوں میں نورِ ایمان اور نگاہوں میں شہادت کا انتظار جلوہ گر رہتا تها۔ہمیں بهی بتاٶ اے لالہ کے سرخ پهولو! اے آزاد اور پارسا لوگو! اے حسینی راستے کے مسافرو! اے کوٸےدوست کےراہیو! تم کس ستارے کی طرف بلاٸے گٸے ہو؟ تم نےایساکیا کردیا کہ اس تک پہنچ بهی گٸے ہو اور تمہارے ہونٹوں پر ہمیشہ عروج و پرواز ہی کی باتیں رہتی ہیں؟ ہمارا ہاته پکڑ کر ہماری بهی رہنمائی کرو اور ہمیں اس دنیا میں تنہا نہ چهوڑو۔ہاں، اےدوستو! تمہارے سوگ میں زندگی کی ذمہ داریاں نبهانا ہمارے لیے مشکل ہوگیا ہے۔اس دنیا میں جس طرف بهی ہم دیکهتے ہیں تمہاری ہی مقدس روح ہمارےاعمال وافعال کا نظارہ کررہی ہوتی ہے۔تمہیں ایسا عروج مبارک ہو خدایا ہمیں بهی اس رازِ شہادت سے آشنا کرو کہ اب یہ دنیا اپنی تر وحشتیں سمیٹے ہمیں اپنے گرداب میں جکڑ رہی ہے۔
وہ ان الفاظ کی تکرار کرتے مسلسل شہدا سے شکوہ کناں تهی کہ ایک شہیدکی آواز آٸی کہ رسمِ عاشقی تو یہ ہے کہ دیدارِ یار کی خاطر دربدر بهٹکاجاٸے۔یہ کیسا عشق ہے کہ فراقِ معشوق میں ابهی نہ چہرے کا جمال ڈهلا ہے اور نہ کثرتِ گریہ سے آنکهوں کی بیناٸی ذاٸل ہوٸی ہے؟ ابهی تو مثلِ زلیخا اپنے یوسف کی خوشبو بهی نہیں آٸی؟ یہ کیسا عشق ہے منتقمِ کربلا عج اور شہدا سے؟ ابهی تو تم میں کوٸی مثلِ بوذر اور سلمان نہیں؟ کوٸی حر اور حبیب سا نہیں۔
اسکے پاس سواٸے سر جهکانےکے کوٸی جواب نہ تها کہ دفعتا ایک شہید کی آواز آٸی کہ اگر کانٹےدار تاروں کو عبور کرنا ہے تو پہلے اپنے نفس کی کانٹے دار تاروں کوعبور کریں۔جب تک ہم اپنی ذات کے اردگرد پهنسے ہوٸے ہیں کوٸی کام انجام نہیں دے سکتے اور یہ بات اُس نےہمیں سیکهاٸی ہے جو خود بیس سالہ مجاہد ہے۔میں نے اُس کا ہاته مضبوطی سے تهام کرکہا: تمہیں بتانا ہوگا کہ اس ماجرا کارازکیا ہے؟ یہ شہادت کاماجرا، مجهے بتاٶ میں نے کیوں ابهی تک مقامِ شہادت کو درک نہیں کیا؟ اِس نے مجه پر ایک نگاہ ڈالی، ہلکا سا تبسم کیا اور سر جهکا کرکہا: شہادت کا راز آنسوٶں میں چهپا ہے۔اس راز کو اشکوں میں تلاش کرو۔ابهی مزید کلام کرنا چاہا کہ شہید تبسم کرتے روانہ ہوگٸے اور ہاته میں ماملت شہادتیم کی پٹی ہنوز آنسوٶں سے تر تهی۔