۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
سویرا بتول

حوزہ/ یہ حرم کےپروانوں سے لازوال عشق کی سچی داستان ہے۔راہِ عشق خدا پر گامزن اِس لڑکی کے قدرت نے بہت امتحان لیے مگر شہدإ سے توسل کی بنإپر وہ ہر موڑپر ثابت قدم رہی۔

تحریر: سویر ابتول

حوزہ نیوز ایجنسی یہ حرم کےپروانوں سے لازوال عشق کی سچی داستان ہے۔راہِ عشق خدا پر گامزن اِس لڑکی کے قدرت نے بہت امتحان لیے مگر شہدإ سے توسل کی بنإپر وہ ہر موڑ پر ثابت قدم رہی۔یہ داستان چند اقساط پر مشتمل ہے۔یہاں چشمِ تصورمیں بہشت زہرا کی منظر کشی کی گٸی ہے۔مسلسل اضطراب اور شہدا سے توسل زندگی کو کیسا تبدیل کر کے رکھ دیتا یہ اس داستان سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔عشق کی اس سچی داستان کا ہر حرف اشکوں سےلکھا گیا ہے جس کا اندازہ ہمارے قارئين کو بھی ہوگا۔یہ داستان ہر عاشقِ شہدا کے نام جو شب کی تاریکیوں میں جنابِ سیدہ سلام علہیا سے اپنے لیے گمنامی لکھواتے ہیں)
سلام بر عاشقانِ خدا
سلام بر مدافعین حرم

شب کاسناٹا ہرسوں پھیل رہا تھا،ہر گزرتا لمحہ اُس کے اضطراب میں اضافہ کرتا۔آج شبِ جمعہ تھی اور یہ شب ہمیشہ اُس پر گراں گزرتی۔بہشتِ زہرا میں بلند ہوتی العفو کی صداٸیں اُس کےوجود میں اضطراب کی ایک نٸی لہر کو جاری کردیتی۔ وہ ایک گمنام شہید کی قبر پر موجود تھی۔وہ شہدا جن کا جنازہ نہ مل پاتا اُن کی قبر مں پھول دفن کیے جاتے ہیں جسے یادِ بود کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔شہدا شہادت کے پروں سے پروازکرتے ہوٸے ذاتِ اقدس کی طرف چلے گٸے لیکن اُن کے خونی جسد یہاں وہاں بکھرے ہوٸے پھولوں کی مانند پڑے ہوٸے تھے ،وہ کٸی گھنٹے شہدا کے جوار میں گزار دیتی۔

شبِ جمعہ گلزارِ شہدا کا منظر عجیب ہوتا ہے۔وہ یہاں باقاعدگی سے آیاکرتی تھیں،اکثر اوقات شہداسے توسل کرتے،گریہ کرتے اُسکا سانس رکتا دیکھاٸی دیتا۔گردسے اٹانحیف ساوجود اور چہرےپر آنسوٶں کی لڑیاں اُس کی شہدإ سے عقیدت کو ظاہرکرتا ،وہ آج تک اِس عشق کو کوٸی نام نہیں دے پاٸی تھی۔راہِ عشقِ خدا پر گامزن یہ لڑکی نہیں جانتی تھی کہ عشق الہی میں بڑے بڑے امتحان لیے جاتے ہیں،ایک ذرا سی غلطی عرش سے فرش پر لاپھینکتی ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے اُس نے شہدا پر اس قدر گریہ کیا کہ اُس کے احباب اُسے کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے تشخيص کروانے کا کہتے۔وہ ہمیشہ جواباً یہی کہتی کہ دنیا کا کوٸی طبیب بھی حرم کےپروانوں سے عشق کی داستان کو سمجھ نہیں سکتا۔بسا اوقات اُسے ایسا لگتا کہ وہ ٹوٹ چکی ہے، بکھر گٸی ہے،تھک گٸی ہے اور پھر وہ گھنٹوں شہدا سے توسل کرتی،کبھی اپنے لیے گمنامی مانگتی اور کبھی جلد پرواز کرنے کا عندیہ طلب کرتی۔

آج کی شب بہت خاص تھی کیونکہ آج شہید ابراہیم ہادی کا روزِ ولادت تھا اورکیا حسن اتفاق تھا کہ چند روز قبل ام الشہدا جناب سیدہ سلام علہیا کا روزِ ولادت بھی تھا۔شہید ابراہیم ہادی کو جنابِ فاطمہ زہرا سلام علہیا سے ایک خاص قسم کی عقیدت تھی۔شہید ہمیشہ اپنے لیے جناب زہرا سلام علہیا جیسی گمنامی طلب کرتے۔اکثر کہاکرتے کہ میری خواھش ہےکہ جیسےمادر جان کے روضےکاکتبہ نہیں ہے ویسے میری قبر کا بھی نشان نہ ملے۔شہید ابراہیم ہادی اکثر اوقات مجلس میں مرثیے و نوحے پڑھتے تھے خصوصا حضرت زہرا سلام علہیا سے متعلق نوحے بہت ہی جان سوز تھے۔وہ شہدا کہ جنکے جنازے بھی نہ ملتے تھےاُن سے شہید کو عجیب قسم کا لگاٶ تھا۔اتنا زیادہ کہ اُن کی تمام سوچیں اور ذکر اُن گمنام شہدا کے بارے میں تھیں۔وہ اُن کے گمنام مزاروں کو حضرت زہرا سلام علہیا کے مخفی مزار سے تشبیہ دیتے تھےاُن کی آرزو تھی کہ وہ حضرت زہرا کی طرح شہید ہوں اور اُن کی قبر کا بھی کسی کو علم نہ ہو۔وہ شہید ابراہیم ہادی کی طرح جانتی تھی کہ جو عشق کرتا ہے وہ شہید ہوجاتا ہے اور جو عشق کی تمام منازل کو عبور کرتا ہے وہ گمنام ہوجاتا ہے۔اُسے علم تھا کہ شہرت پرستوں کے لیے شہرت سب کچھ ہے جبکہ تمام تر اجر گمنامی میں ہے۔اُس نے کٸی سال گمنام رہ کر کام کیا مگر شہدإ کے طفیل اُسےشہرت بھی ملی اور مقام بھی۔وہ جانتی تھی کہ عشق کا راستہ ایسا راستہ ہے جس کی کوٸی انتہانہیں، وہاں سر کی بازی لگادینا ہی عشق و وفا و اطاعت کی دلیل ہے۔

ابھی وہ شہدا سے توسل کر رہی تھی کہ ایک گوشے سے ایک جوان شہید کی آواز سناٸی دی اے میرے دوستو! جلدی کرو کہ زمین رہنے کہ جگہ نہیں،صرف گزرگاہ ہے۔کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کوٸی گزرگاہ پر رہائش پذیر ہوجاٸے؟ اور شک نہ کرو کہ موت یہاں سب سے زیادہ تمہارے نزدیک ہے کہ کربلا میں کربلا والوں کے ساتھ ہے۔ناامید مت ہوں کہ آپ کےلیے بھی کربلا اور عاشورہ ہے جس میں کچھ تمہارے خون کے بھی پیاسےہیں جبکہ تمہارے کچھ ساتھی انتظار کر رہے ہیں کہ تم اپنے خاکی وجود کی زنجیروں کوپاٶں سے کھول دو اور اپنے آپ سے اوراپنی دلی وابستگیوں سےہجرت کرو اور زماں و مکاں کی قید سے بالاتر ہوکر آگے بڑھو اور خود کو سن٦١ ہجری کے قافے تک پہنچاٶ اور امامِ عشق کی رکاب میں اُس لذت اور سرمستی کو محسوس کروجسے حرع اور حبیب ع نے محسوس کیا۔

اس شہید کی آواز نے فضا میں ایک عجیب کیفیت کو پیدا کردیا شہید کی آواز مسلسل اُس کے ذہن میں گردش کر رہی تھی ۔وہ مسلسل رو رہی تھی،اُس کا دل کیا کہ زور سے چیخے چلاٸے،اپنے دل کا سارا درد چیخ چیخ کربیان کرے، سالوں کا یہ اضطراب اور شہدا کی مناجات جو کٸی برس سے اُسے سونے نہ دے رہی تھیں اُسے اشکوں کےذریعے بیان کرے مگر اُس کے آنسو کٸی حلق میں ہی اٹک گٸے تھے۔گھنٹوں پر محیط گریہ کی وجہ سے اُس کی سانسیں اکھڑنےلگیں تھیں،زرد پرتی رنگت کے باوجود وہ مسلسل مدافعین حرم سے توسل کرتے ہوٸے کہ رہی تھی کہ مجھے علم ہے کہ میں گناہوں سے آلودہ ہوں،آپ جیسی پاک و طاہر نہیں،دنیا کی آلودگیوں نے میرے نفس کو پرگندہ کر دیا ہے،میں روز بروز گناہوں کے دلدل میں دھنستی جارہی ہوں۔اُس کا دل کیا کہ وہ زور سے چیخ مارے اور اُس کی روح پرواز کرجاٸے۔اُس کی حالت قابلِ رحم تھی اُس کی روح کی اس تڑپ کو شاید کوٸی نہ سمجھ پاتا عین ممکن تھا کہ اُس کی روح پرواز کرجاٸےکہ کہی سے سحر انگیز عطر کی خوشبوآٸی جس نے اُس کے پورے وجود کو معطر کردیا۔کشادہ پیشانی،مطمٸن چہرہ،لب پر تبسم سجاٸے یہ سولہ سالہ شہید تھا،اُس نے چاہا کہ اُسے روکے،اپنےلیے شہادت طلب کرےکہ وہ جوان تبسم کرتا ہوا، دھیمےلہجے میں سرگوشی کرتا چلاگیا اُس نے اپنے مخصوص انداز میں کہاتھا *رازِشہادت در اشک است*۔اُس کےہاتھ پہ دھری کلنا عباسک یازینب کی پٹی ھنوز اشکوں سے تر تھی اور وہ بے ہوش ہوگٸی تھی۔(جاری ہے)

دین کا ثبات ہو
زیست کی نجات ہو
قوم کی حیات ہو
اے شہیدو تم وفا کی کاٸنات ہو
اے شہیدو اے شہیدو تم حیات ہو
اے شہیدو تم وفا کی کاٸنات ہو

تبصرہ ارسال

You are replying to: .