حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ کی رپورٹ کے مطابق، شہید سید مرتضی حسینی نسب، 1369 ہجری شمسی میں پیدا ہوئے اور کرمانشاہ کے ایک محلہ میں ایک دیندار اور سادہ زندگی گزارنے والے خاندان میں پرورش پائی۔ وہ سات بھائی بہنوں کے درمیان پروان چڑھے۔ ان کے والد ایک مومن اور محنتی انسان تھے جو خیاطی کے پیشے سے رزق حلال کماتے اور اپنے فرزند کو اسی راستے پر تربیت دیتے یہاں تک کہ وہ وطن پر قربان ہو گئے۔
شہید مرتضی کی دیرینہ آرزو شہادت تھی اور بالآخر یہ آرزو اس سال 24 خرداد (14 جون 2025ء)، عید غدیر امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دن پوری ہوئی، جب وہ غاصب صہیونی حکومت کے خلاف 12 روزہ جنگ کے دوران شہید ہو گئے۔
شہید کے دو بچے، سات سالہ زہرا سادات اور چار سالہ سید محمد صالح اپنے بابا کے جانے کے بعد صبر اور اداسی کی ملی جلی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ زہرا سادات، جو سکول کی پہلی جماعت کی طالبہ ہے، اپنے بابا کے بارے میں سادگی مگر سچائی سے لبریز الفاظ میں کہتی ہے:
"بابا چونکہ اچھے تھے، شہید ہو گئے اور خدا و امام حسین (علیہ السلام) کے پاس چلے گئے۔"
یہ کلمات ایک ایسی بیٹی کے ہیں جو اپنی معصوم زبان سے شہادت کے بلند مفہوم کو بیان کرتی ہے۔
زہرا اپنی یادوں میں کھو کر بتاتی ہے: "دل بہت تنگ ہو گیا ہے بابا، واپس آجائیں، میرے پاس آئیں"
وہ ان لمحات کو یاد کرتی ہے جب بابا کام سے گھر آتے، سب سے پہلے اس سے ملتے اور پھر اپنے چھوٹے بیٹے سید محمد صالح کی طرف جاتے۔
دوسری جانب محمد صالح ابھی بچپن کے جوش و خروش میں ہے، مگر بابا کے نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑا سا ہو گیا ہے۔ ماں اور چچا اس کی دلجوئی کی کوشش کرتے ہیں مگر جیسے دکھ کا بوجھ زندگی کی سانسوں کو بھی تھامے ہوئے ہے۔ محمد صالح ان مہربان ہاتھوں کو تلاش کرتا ہے جو بابا کی طرح اسے سکون دیں۔
یہ ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ ان ہزاروں شہداء کے بچوں کی کہانی ہے جو غم میں بڑے ہو رہے ہیں مگر ان کی معصوم زبانوں سے نکلنے والے جملے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ شہادت، حقیقت میں ایک عظیم مقام ہے، جو صرف "اچھوں" کے نصیب میں آتا ہے۔









آپ کا تبصرہ