تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کی فانی حقیقت اور انسان کا یہاں عارضی قیام ہمیں ہمیشہ یاد دلاتا ہے کہ زندگی مختصر ہے اور ہر فرد کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی وفات/شہادت محض ایک فرد کے جانے کی نہیں، بلکہ ایک عہد کے خاتمے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ ایسے نابغۂ روزگار افراد اپنی زندگی میں علم، اخلاق اور خلوص کے ایسے مینار قائم کرتے ہیں کہ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا برسوں بھر نہیں پاتا۔ شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی ایسی ہی ایک شخصیت تھے، جن کے علم، رہنمائی اور خدمات نے نہ صرف ملتِ تشیّع بلکہ پورے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے۔
شہید رضوی کی شہادت کو بیس سال گزر چکے ہیں، مگر ان کی یاد آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے اور ان کے چھوڑے گئے مشن کے بارے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک ایسا رہنما جس نے علمی میدان، نصاب کی تحریک اور سیاسی بصیرت کے ذریعے ملت کو ایک سمت دی، ان کی جگہ آج تک کوئی نہ لے سکا۔ ان کی شہادت کے بعد ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی؟
علامہ رضوی کی شخصیت کسی ایک پہلو تک محدود نہیں تھی۔ وہ ایک جیّد عالمِ دین، بے مثال معلم، فاضل مدرّس، توانا خطیب، دیانتدار محقّق، سماجی شعور کے داعی اور سیاسی بصیرت رکھنے والے عوام دوست رہنما تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ نصاب کی اصلاح کے لیے کی جانے والی جدوجہد تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ نصاب میں ایسے مضامین شامل ہوں جو ملت کے عقائد، تاریخ اور ثقافت کی نمائندگی کریں۔ مگر آج بیس سال گزرنے کے باوجود، ان کے اس خواب کی تکمیل کس حد تک ہوئی؟ کیا نصاب تعلیم کے لیے کی جانے والی وہ تحریک عملی اقدامات میں ڈھل پائی یا وہ صرف نعروں تک محدود رہی؟
اسی طرح ان کی سیاسی بصیرت اور وژن کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے ملت کو اتحاد، اتفاق اور سیاسی خودمختاری کا درس دیا۔ ان کی رہنمائی میں ملت نے کئی چیلنجز کا سامنا کیا اور اپنی جگہ بنائی۔ مگر آج جب ہم ان کے بغیر کھڑے ہیں، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ان کی سیاسی بصیرت کو عملی شکل دی گئی؟ کیا ملت کو ان کے فراہم کردہ سیاسی پلیٹ فارم کو مضبوط کیا گیا یا ان کی جدوجہد کو بھلا دیا گیا؟ گلگت بلتستان کو آئینی و قانونی حیثیت دلانے کی جدوجہد کس مرحلے میں ہے؟ شہید رضوی کی شہادت ایک سوال چھوڑتی ہے: کیا ہم ان کے مشن کے وارث ثابت ہو سکے؟ کیا ان کی قربانی کے نتیجے میں ہم نے اپنے اجتماعی مسائل کا حل تلاش کیا؟ یا ہم صرف ان کے نام پر تقاریب اور جلسوں تک محدود رہ گئے؟
ملت کے موجودہ حالات ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ بیس سال گزرنے کے بعد بھی ہم ان کے چھوڑے گئے علمی اور عملی خلا کو پُر کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ کیا یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا ثبوت نہیں؟ شہید کی شخصیت اور ان کے مشن کو یاد رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلیں، ان کے علمی کاموں کو مکمل کریں اور ان کے مشن کو اپنے عمل کے ذریعے زندہ رکھیں۔
علامہ ضیاء الدین رضوی جیسے رہنما روز پیدا نہیں ہوتے۔ ان کی شہادت نہ صرف ایک فرد کا نقصان تھی بلکہ ملت کے لیے ایک ایسا لمحہ تھا جس نے ہمیں اپنے اندر جھانکنے اور خود کو بہتر بنانے کا موقع دیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی میراث کو آگے بڑھائیں اور اس امر کو
یقینی بنائیں کہ ان کے مشن کا چراغ کبھی بجھ نہ سکے۔ یہ ہمارا شہید کے ساتھ سب سے بڑا انصاف ہوگا۔
شہید علامہ ضیاء الدین رضوی کی شہادت کے بعد جو خلا پیدا ہوا، اس کا اثر صرف ملتِ تشیّع پر نہیں بلکہ پورے معاشرتی نظام پر محسوس کیا گیا۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اختلافات کے باوجود اتحاد کو فروغ دیا اور ہمیشہ ملت کو درپیش مسائل کا اجتماعی حل نکالنے کی کوشش کی۔ ان کی شہادت نے ہمیں یہ سبق دیا کہ رہنمائی صرف علمی قابلیت کا نام نہیں، بلکہ عمل اور قربانی کی عملی تصویر بھی ہے۔
آج ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم نے ان کی نصیحتوں پر عمل کیا؟ کیا ملت کے نوجوانوں کو وہ شعور اور رہنمائی فراہم کی گئی جو وہ چاہتے تھے؟ یا ہم نے صرف ان کی یاد کو تقاریب اور رسمی نعروں تک محدود کر دیا؟
اس کے علاوہ شہید کی علمی خدمات کا تسلسل بھی ضروری ہے۔ ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا علم دوست رویہ تھا۔ انہوں نے نوجوان نسل کو علم اور شعور کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ ان کی کتابیں، خطبات اور تحریریں آج بھی ہمارے لیے ایک رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے علمی کام کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔
اسی طرح ان کے مشن کا ایک اہم حصہ ملت کے اندر خود احتسابی کا فروغ تھا۔ وہ ہمیشہ ملت کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینے اور انہیں دور کرنے پر زور دیتے تھے۔ آج ہمیں ان کی رہنمائی کی روشنی میں اپنی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لینا ہوگا اور یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر کہاں تک چل سکے ہیں۔
شہید کا ذکر صرف ماضی کی یاد دہانی نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جو ہمیں اپنے حال اور مستقبل کی بہتری کے لیے قدم اٹھانے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ان کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے اپنے عمل کو ان کے مشن کے مطابق ڈھالیں تاکہ ملت کے مسائل کا حقیقی حل نکل سکے۔
شہید علامہ ضیاء الدین رضوی کی ملی قیادت سے وفاداری بھی ایک روشن حقیقت ہے جو تاریخ کے صفحات پر نقش ہے۔ ان کی وفاداری کا پہلو اتنا واضح ہے کہ اسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔
آج سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے یا شہید رضوی کو اس سلسلے میں مشعلِ راہ بنایا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے ضمیر کی گہرائیوں میں موجود ہے، جہاں سچائی کی گواہی ہمارے ہر عمل کا آئینہ بنتی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ شہید رضوی کی مخلصانہ وفاداری کو یاد رکھیں اور انہیں اپنے عمل و کردار کا حصہ بنائیں، تاکہ ان کی جدوجہد اور قربانی کو حقیقتاً زندہ رکھا جا سکے۔
آپ کا تبصرہ