جمعہ 28 جنوری 2022 - 18:12
آنسو اور شہادت؛ حرم کے پروانوں سےلازوال عشق کی داستان

حوزہ/ یہ حرم کےپروانوں سے لازوال عشق کی سچی داستان ہے۔راہِ عشق خدا پر گامزن اِس لڑکی کے قدرت نے بہت امتحان لیے مگر شہدإ سے توسل کی بنإپر وہ ہر موڑپر ثابت قدم رہی۔

تحریر: سویر ابتول

حوزہ نیوز ایجنسی یہ حرم کےپروانوں سے لازوال عشق کی سچی داستان ہے۔راہِ عشق خدا پر گامزن اِس لڑکی کے قدرت نے بہت امتحان لیے مگر شہدإ سے توسل کی بنإپر وہ ہر موڑ پر ثابت قدم رہی۔یہ داستان چند اقساط پر مشتمل ہے۔یہاں چشمِ تصورمیں بہشت زہرا کی منظر کشی کی گٸی ہے۔مسلسل اضطراب اور شہدا سے توسل زندگی کو کیسا تبدیل کر کے رکھ دیتا یہ اس داستان سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔عشق کی اس سچی داستان کا ہر حرف اشکوں سےلکھا گیا ہے جس کا اندازہ ہمارے قارئين کو بھی ہوگا۔یہ داستان ہر عاشقِ شہدا کے نام جو شب کی تاریکیوں میں جنابِ سیدہ سلام علہیا سے اپنے لیے گمنامی لکھواتے ہیں)
سلام بر عاشقانِ خدا
سلام بر مدافعین حرم

شب کاسناٹا ہرسوں پھیل رہا تھا،ہر گزرتا لمحہ اُس کے اضطراب میں اضافہ کرتا۔آج شبِ جمعہ تھی اور یہ شب ہمیشہ اُس پر گراں گزرتی۔بہشتِ زہرا میں بلند ہوتی العفو کی صداٸیں اُس کےوجود میں اضطراب کی ایک نٸی لہر کو جاری کردیتی۔ وہ ایک گمنام شہید کی قبر پر موجود تھی۔وہ شہدا جن کا جنازہ نہ مل پاتا اُن کی قبر مں پھول دفن کیے جاتے ہیں جسے یادِ بود کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔شہدا شہادت کے پروں سے پروازکرتے ہوٸے ذاتِ اقدس کی طرف چلے گٸے لیکن اُن کے خونی جسد یہاں وہاں بکھرے ہوٸے پھولوں کی مانند پڑے ہوٸے تھے ،وہ کٸی گھنٹے شہدا کے جوار میں گزار دیتی۔

شبِ جمعہ گلزارِ شہدا کا منظر عجیب ہوتا ہے۔وہ یہاں باقاعدگی سے آیاکرتی تھیں،اکثر اوقات شہداسے توسل کرتے،گریہ کرتے اُسکا سانس رکتا دیکھاٸی دیتا۔گردسے اٹانحیف ساوجود اور چہرےپر آنسوٶں کی لڑیاں اُس کی شہدإ سے عقیدت کو ظاہرکرتا ،وہ آج تک اِس عشق کو کوٸی نام نہیں دے پاٸی تھی۔راہِ عشقِ خدا پر گامزن یہ لڑکی نہیں جانتی تھی کہ عشق الہی میں بڑے بڑے امتحان لیے جاتے ہیں،ایک ذرا سی غلطی عرش سے فرش پر لاپھینکتی ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے اُس نے شہدا پر اس قدر گریہ کیا کہ اُس کے احباب اُسے کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے تشخيص کروانے کا کہتے۔وہ ہمیشہ جواباً یہی کہتی کہ دنیا کا کوٸی طبیب بھی حرم کےپروانوں سے عشق کی داستان کو سمجھ نہیں سکتا۔بسا اوقات اُسے ایسا لگتا کہ وہ ٹوٹ چکی ہے، بکھر گٸی ہے،تھک گٸی ہے اور پھر وہ گھنٹوں شہدا سے توسل کرتی،کبھی اپنے لیے گمنامی مانگتی اور کبھی جلد پرواز کرنے کا عندیہ طلب کرتی۔

آج کی شب بہت خاص تھی کیونکہ آج شہید ابراہیم ہادی کا روزِ ولادت تھا اورکیا حسن اتفاق تھا کہ چند روز قبل ام الشہدا جناب سیدہ سلام علہیا کا روزِ ولادت بھی تھا۔شہید ابراہیم ہادی کو جنابِ فاطمہ زہرا سلام علہیا سے ایک خاص قسم کی عقیدت تھی۔شہید ہمیشہ اپنے لیے جناب زہرا سلام علہیا جیسی گمنامی طلب کرتے۔اکثر کہاکرتے کہ میری خواھش ہےکہ جیسےمادر جان کے روضےکاکتبہ نہیں ہے ویسے میری قبر کا بھی نشان نہ ملے۔شہید ابراہیم ہادی اکثر اوقات مجلس میں مرثیے و نوحے پڑھتے تھے خصوصا حضرت زہرا سلام علہیا سے متعلق نوحے بہت ہی جان سوز تھے۔وہ شہدا کہ جنکے جنازے بھی نہ ملتے تھےاُن سے شہید کو عجیب قسم کا لگاٶ تھا۔اتنا زیادہ کہ اُن کی تمام سوچیں اور ذکر اُن گمنام شہدا کے بارے میں تھیں۔وہ اُن کے گمنام مزاروں کو حضرت زہرا سلام علہیا کے مخفی مزار سے تشبیہ دیتے تھےاُن کی آرزو تھی کہ وہ حضرت زہرا کی طرح شہید ہوں اور اُن کی قبر کا بھی کسی کو علم نہ ہو۔وہ شہید ابراہیم ہادی کی طرح جانتی تھی کہ جو عشق کرتا ہے وہ شہید ہوجاتا ہے اور جو عشق کی تمام منازل کو عبور کرتا ہے وہ گمنام ہوجاتا ہے۔اُسے علم تھا کہ شہرت پرستوں کے لیے شہرت سب کچھ ہے جبکہ تمام تر اجر گمنامی میں ہے۔اُس نے کٸی سال گمنام رہ کر کام کیا مگر شہدإ کے طفیل اُسےشہرت بھی ملی اور مقام بھی۔وہ جانتی تھی کہ عشق کا راستہ ایسا راستہ ہے جس کی کوٸی انتہانہیں، وہاں سر کی بازی لگادینا ہی عشق و وفا و اطاعت کی دلیل ہے۔

ابھی وہ شہدا سے توسل کر رہی تھی کہ ایک گوشے سے ایک جوان شہید کی آواز سناٸی دی اے میرے دوستو! جلدی کرو کہ زمین رہنے کہ جگہ نہیں،صرف گزرگاہ ہے۔کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کوٸی گزرگاہ پر رہائش پذیر ہوجاٸے؟ اور شک نہ کرو کہ موت یہاں سب سے زیادہ تمہارے نزدیک ہے کہ کربلا میں کربلا والوں کے ساتھ ہے۔ناامید مت ہوں کہ آپ کےلیے بھی کربلا اور عاشورہ ہے جس میں کچھ تمہارے خون کے بھی پیاسےہیں جبکہ تمہارے کچھ ساتھی انتظار کر رہے ہیں کہ تم اپنے خاکی وجود کی زنجیروں کوپاٶں سے کھول دو اور اپنے آپ سے اوراپنی دلی وابستگیوں سےہجرت کرو اور زماں و مکاں کی قید سے بالاتر ہوکر آگے بڑھو اور خود کو سن٦١ ہجری کے قافے تک پہنچاٶ اور امامِ عشق کی رکاب میں اُس لذت اور سرمستی کو محسوس کروجسے حرع اور حبیب ع نے محسوس کیا۔

اس شہید کی آواز نے فضا میں ایک عجیب کیفیت کو پیدا کردیا شہید کی آواز مسلسل اُس کے ذہن میں گردش کر رہی تھی ۔وہ مسلسل رو رہی تھی،اُس کا دل کیا کہ زور سے چیخے چلاٸے،اپنے دل کا سارا درد چیخ چیخ کربیان کرے، سالوں کا یہ اضطراب اور شہدا کی مناجات جو کٸی برس سے اُسے سونے نہ دے رہی تھیں اُسے اشکوں کےذریعے بیان کرے مگر اُس کے آنسو کٸی حلق میں ہی اٹک گٸے تھے۔گھنٹوں پر محیط گریہ کی وجہ سے اُس کی سانسیں اکھڑنےلگیں تھیں،زرد پرتی رنگت کے باوجود وہ مسلسل مدافعین حرم سے توسل کرتے ہوٸے کہ رہی تھی کہ مجھے علم ہے کہ میں گناہوں سے آلودہ ہوں،آپ جیسی پاک و طاہر نہیں،دنیا کی آلودگیوں نے میرے نفس کو پرگندہ کر دیا ہے،میں روز بروز گناہوں کے دلدل میں دھنستی جارہی ہوں۔اُس کا دل کیا کہ وہ زور سے چیخ مارے اور اُس کی روح پرواز کرجاٸے۔اُس کی حالت قابلِ رحم تھی اُس کی روح کی اس تڑپ کو شاید کوٸی نہ سمجھ پاتا عین ممکن تھا کہ اُس کی روح پرواز کرجاٸےکہ کہی سے سحر انگیز عطر کی خوشبوآٸی جس نے اُس کے پورے وجود کو معطر کردیا۔کشادہ پیشانی،مطمٸن چہرہ،لب پر تبسم سجاٸے یہ سولہ سالہ شہید تھا،اُس نے چاہا کہ اُسے روکے،اپنےلیے شہادت طلب کرےکہ وہ جوان تبسم کرتا ہوا، دھیمےلہجے میں سرگوشی کرتا چلاگیا اُس نے اپنے مخصوص انداز میں کہاتھا *رازِشہادت در اشک است*۔اُس کےہاتھ پہ دھری کلنا عباسک یازینب کی پٹی ھنوز اشکوں سے تر تھی اور وہ بے ہوش ہوگٸی تھی۔(جاری ہے)

دین کا ثبات ہو
زیست کی نجات ہو
قوم کی حیات ہو
اے شہیدو تم وفا کی کاٸنات ہو
اے شہیدو اے شہیدو تم حیات ہو
اے شہیدو تم وفا کی کاٸنات ہو

  • وادی عشاق الشہداء

    وادی عشاق الشہداء

    حوزہ/ شہدإ کی یادوں کوپڑھا کریں کونکہ وہ ہمیں زندگی گزارنےکے طریقے سیکھاتے ہیں اور خدا خداکی معرفت سے آشنا کرتے ہیں۔

  • ہے تم سے کربلا زندہ شہیدوں زندہ باد

    ہے تم سے کربلا زندہ شہیدوں زندہ باد

    حوزہ/ شہادت ایک بلند و باوقار درجہ ہے جسے شہید آگاہانہ طور پر مقصد کو بچانے کے لیے تمام زندگی و ہستی کو مٹا کر حاصل کرتا ہے۔

  • مدافعین حرم اور ہماری ذمہ داریاں۔۔۔۔! 

    مدافعین حرم اور ہماری ذمہ داریاں۔۔۔۔! 

    حوزہ/ اگر شہداٸے زینبیون نے دیار غیر میں آپ کے حصے کی جنگ لڑی تو کیا غلط کیا؟ کیوں آج ہمارے وہ جوان واپس وطن نہیں آسکتے؟....

  • فصلِ گل ہے اب جہاں میں اے شہیدو تم کہاں ہو؟؟

    فصلِ گل ہے اب جہاں میں اے شہیدو تم کہاں ہو؟؟

    حوزہ/ اگرچہ دنیا زیبا اور دلکش ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے لیکن خدا کی بتلاٸی ہوٸی آخرت دنیا سے زیادہ خوبصورت اور بلند و عالی ہے۔جب مالِ دنیا کو…

  • صدائے مظلوم۔۔۔سید شہید حسن نصر اللہ

    صدائے مظلوم۔۔۔سید شہید حسن نصر اللہ

    حوزہ/ آج بھی شہید سید حسن نصر اللہ ایک مرد مجاہد، فخر عرب و عجم، اور صدائے انسانیت کے علمبردار ہیں۔ انہوں نے محمد کی صداقت اور علی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے…

  • وادی عشاق الشہداء

    قسط ۲:

    وادی عشاق الشہداء

    حوزہ/ ایک شہید کی آواز آٸی کہ اگر کانٹےدار تاروں کو عبور کرنا ہے تو پہلے اپنے نفس کی کانٹے دار تاروں کوعبور کریں۔جب تک ہم اپنی ذات کے اردگرد پھنسے ہوٸے…

  • حضرت زہرا (س) کی عظمت قرآن کی روشنی میں

    حضرت زہرا (س) کی عظمت قرآن کی روشنی میں

    حوزہ/ کسی بھی دینی و مذہبی شخصیت کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کے لٸے ذاتی جذبات و عقیدت کا اظہار کرنا درست نہیں ہے۔دینی شخصیات کی عظمت و اہمیت کو بیان…

  • پاسبانِ ولایت فقیہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی

    پاسبانِ ولایت فقیہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی

    حوزہ/ شہید محمد علی نقوی نے اپنا پاکیزہ لہو اسی ولایت فقیہ کے دفاع کےلیےدیا،آج پاکستان میں ولایت فقیہ پر سوال اٹھاٸے جارہے ہیں، پیروان شہید اور خط امام…

  • شہیدِ گمنام۔۔۔شہید ناصر صفوی (2)

    شہیدِ گمنام۔۔۔شہید ناصر صفوی (2)

    حوزہ/ شہید ناصر صفوی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں خطروں سے نہیں ڈرتا ،موت سے نہیں بھاگتا ہوں جب طوفان میرے تحمل کی طاقت سے بڑھ جاتے ہیں میں خدا کو یاد کرکے…

  • شہدا عید ملن پارٹی

    شہدا عید ملن پارٹی

    حوزہ/ بہشت معصومہ قم میں عید الفطر کے موقع پر شہدا عید ملن پارٹی کا اہتمام کیاگیاجس میں ایک ہزار سے زاٸد افراد نے شرکت کی۔

  • زینبیون، محافظین خیمہ ولایت

    زینبیون، محافظین خیمہ ولایت

    حوزہ/ کیا ہمارا حسینی ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟کیا اہل بیت کے مقدسات کی حفاظت کرنا واقعا ناقابل معافی جرم ہے؟

  • مدافعین حرم اور Mi6 کے چیلے

    مدافعین حرم اور Mi6 کے چیلے

    حوزہ/ مدافعین در حقیقت حق و صداقت، آزادی و حریت، امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ایک عظیم الشان قربانی تھی جو اِن پاک طینیت جوانوں نے کلنا عباسک یا زینب کا…

  • کتاب پاسبانِ حرم کا تعارف

    کتاب پاسبانِ حرم کا تعارف

    حوزہ/ کتاب پاسبان حرم جسکی مؤلف محترمہ عطیہ بتول ہیں جو پاسبانِ حرم کے بارے میں ہے جنہوں نے بروقت اپنے لہو کا خراج دیکر مقدسات کا تحفظ یقینی بنایا۔

  • امُ الشہدا اور شہدائے اسلام

    امُ الشہدا اور شہدائے اسلام

    حوزہ/ شہادت فخر ہے لیکن مقصد نہیں۔مقصد اور ہدف صرف اور صرف پروردگار کی اطاعت ہے۔اگر اِس کی رضا شہادت میں ہے تووہ فخر ہےاور اگر اُس کی رضا زندہ رہنے میں…

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha