۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شہید ناصر علی صفوی

حوزہ/ شہادت ایک بلند و باوقار درجہ ہے جسے شہید آگاہانہ طور پر مقصد کو بچانے کے لیے تمام زندگی و ہستی کو مٹا کر حاصل کرتا ہے۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی جیسے جیسے شہید علی ناصر صفوی کی برسی قریب آتی جا رہی ہے مکتب کے گمنام شہدا پر لکھنے کی تڑپ روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔شہید ناصر علی صفوی کی مزاحمتی تحریک میں بہت سارے اسرار ورموز پوشیدہ ہیں جنکا تذکرہ ہم اپنی گزشتہ تحریر میں کر چکے ہیں(ملاحظہ کیجیے شہید گمنام۔۔۔ناصر علی صفوی)۔احباب کے بےحد اصرار پر طبعیت کی ناسازی کے باوجود ہم مجبور ہوٸے کہ شہید کی عظمت پر چند حرف قلمبند کیے جاٸیں۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شخصيت جس قدر عمیق ہو اُس پر قلم اٹھانے سے پہلے اُتنا تفکر کیا جاتا ہے۔

شہید ناصر علی صفوی قرآن مجید کی اس آیت جس میں مرد مومنین کا ذکر کیا گیا؛ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوااللَّهَ کے حقیقی مصداق تھے کیونکہ آپ نے راہ سید الشہداء پر عملی طور پر چل کرخدا سے کیے ہوئے عہد کو پورا کر کے دیکھایا اور پاکستان کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ رہ بنے ۔آپ حقیقی معنی میں ایک دیندار انقلابی اور شب زندہ دار با تقوی مرد مومن تھے۔ آپ نے گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخلہ کے بعد آئی ۔ایس ۔او پاک میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں اسی یونٹ کے یونٹ صدر بھی بنے پھر آپ فیصل آباد ڈویژن کے اے ۔ سی ۔ایس بھی رہے ۔ آپ شہید نواب صفوی سے بہت متاثر تھے اگر ایران میں انقلاب اسلامی رونما نہ ہوتا تو شاید نواب صفوی کی خدمات ہمیشہ پوشیدہ رہتی ٹھیک اسطرح پاکستان کی سرزمین پر شہید علی ناصر صفوی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی وہ شخصیات ہیں جن کی خدمات کو ظاہر کرنے کے لیے بھی انقلاب اسلامی جیسے ماحول کی ضرورت ہے.

شہادت کے دوپہلو ہیں یعنی اول شہید مقصد اور ہدف کو بچانے کے لیےخدا کی راہ میں صرف خدا کے لیے اپنی جان فدا کرے اور دوم شہید کو اس بات کا علم ہو کہ وہ اس عمل میں اپنی جان کھو بیٹھے گا۔شہادت میں چونکہ شہید اچھی طرح جانتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کرتےہوٸے اپنی جان کو مقصد اور ہدف کےلیے قربان کر دے گا اس لیے شہادت کو ایک عمل شجاعانہ اور مردانہ تصور کیا جاتاہے اور ایسی موت زندگی سے بہتر اور محترم ومقدس سمجھی جاتی ہے۔شہید ناصر صفوی اور محرم علی اس بات سے آگاہ تھے کہ اس راہ میں شہادت حتمی ہے۔گویا معلوم ہواکہ شہادت ایک بلند و باوقار درجہ ہے جسے شہید آگاہانہ طور پر مقصد کو بچانے کے لیے تمام زندگی و ہستی کو مٹا کر حاصل کرتا ہے۔

ہمیں کیونکہ اس موضوع پر لکھتے ہوٸے کافی عرصہ گزرگیاہے اس لیے ہم ان ابحاث پر اکثر وبیشتر تفکر کرتے رہتے ہیں۔مردوں کے معاشرے میں ایک خاتون کا کم وقت میں اپنا مقام بنانا شاید معاشرے کی چند شخصیات پر گراں گزارا اور جب دیکھا کہ ہم تمام تر تہمتوں کے باوجود مدافعینِ حرم اور گمنام شہدإ پر قلم اٹھانے سے باز نہیں آ رہے تو کردار کشی جیسا پست حربہ استعمال کیا گیا۔اِن مشکل حالات میں میرے والد صاحب ہر لحظہ میرے ساتھ کھڑے رہے اور ہمیشہ مدافعین حرم پر قلم اٹھانے پر ہمت و حوصلہ دیتے رہے۔ہم نے ازراہ مزاح میں والد صاحب سے کہا کہ آپ جس کام کی اجازت دے رہے ہیں آپ کو علم ہے کہ اُس کے آخر میں ہماری خون بھری میت بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے؟ کیونکہ ہمارا کامل یقین ہے کہ شہادت اتفاق نہیں انتخاب ہے ایک آگاہانہ انتخاب۔میرے والد صاحب کا جواب ہم جیسے مصلحت پسندوں کےلیے قابل فکر بھی ہے اور قابل تذکر بھی۔انہوں نے ہم سے فقط ایک ہی سوال پوچھا کہ کیا ہماری اولاد حسین ابنِ علی علیہ السلام کے ششہ ماہی علی اصغر سے زیادہ حسین اور دینِ الہی سے زیادہ اہم ہے؟ اگر راہِ خدا میں حق بات بیان کرتے ہم لقاٸے الہی کا جام پیتے ہیں تو یہ باعثِ سعادت ہے۔

ہم خود سے سوال پوچھیں کہ کیا ہماری مصلحانہ روش شہید ناصر علی صفوی کی مزاحمتی تحریک سے زیادہ اہم ہے؟کہی ہم مصلحت کے نام پر مکتب اور اپنے بنیادی عقائد کو قربان تو نہیں کر رہے؟ہم جس حسین ابن علی علیہ السلام کو پوری دنیا کے سامنے امام حریت و انسانیت کے طور پر پیش کرتے کہی خود مصلحت کی بیڑیاں تو نہیں پہنے ہوٸے؟ اگر محرم علی یا ناصر صفوی کسی مصلحت کا شکار ہوتے تو کیا شہید ہوتے؟(گمنام سپاہی کی قبر تحریر کا ضرور مطالعہ کریں ایک درد ہے قوم کی بیٹی کا )

شہید ناصر صفوی اوران جیسے شہدإ نہ صرف مکتبِ اہل بیت بلکہ ہر عاشقِ اہل بیت کا افتخار ہیں۔یہ وہ شہدإ ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ لکھا جانا چاہیے اور اِن کے افکار کو عام کیا جانا چاہیے۔ان کی خدمات پر کٸی کتب مرتب کی جانی چاہیے۔ ریاست کے ڈر سے اِن شہدإ کو اتنا بھی گمنام نہیں ہونا چاہیے کہ آٸندہ نسلیں ہم سے اِن کے بارے میں استفسار کریں۔باخدا ناصر صفوی کی جگہ خالی ہے کہاں اِس کو پُر کرنے والے؟ آج اِن شہدإ کے مرقد گمنامی کا استعارہ کیوں بنتے جا رہے ہیں؟کیا شہدإ کا حق فقط اتنا ہے کہ اُن کی برسی پر چھوٹا سا پروگرام منعقد کرکے چار انقلابی ترانے لگا کر دامن جھاڑ کر گھر پلٹ جاٸیں؟کیا شہدإ ہم پر فقط اتنا حق رکھتے ہیں یا ہم سے کچھ تقاضا بھی کرتے ہیں؟

نگاہِ صبر سے توڑی ستم کی زنجیریں
لہو سے تُم سے بناٸی وفا کی تصویریں
دعائيں دیتی ہیں زہرا سلام علہیا
شہیدو زندہ باد
شہیدو زندہ باد
ہے تم سے کربلا زندہ
شہیدو زندہ باد !!!

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .