۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
سویرا بتول

حوزہ/ اگر وقت کے حسین علیہ السلام کوخون کا نذرانہ پیش کرنے کا موقع ملے تو قدم ڈگمگاٸے نہیں بلکہ کامل یقین کے ساتھ میدانِ عمل میں اتریں۔شہادت یعنی عشق اور عشق ہر ایک کو نہیں ملتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ادارہ التنزیل یوسفِ زہراء کی ثقافتی مسئول و فاطمیہ اسکاؤٹ کی منتظمین، معروف کالم نگار خواہر سویرا بتول نے کہا کہ عشقِ الہی کا فلسفہ نظامِ فکر کی بنیاد ہے۔عقل سے کاٸنات کو تسخیر کیا جاسکتا ہے مگر لامکاں کی تسخیر کے لیے عشق درکار ہے، ایسا عشق جو شہدا نے خدا سے کیا،شب کی تاریکیوں میں،محاذ کے تپتے صحراٶں میں *العفو* کی بلند ہوتی صداٶں میں ،جہاں صحرا کی جھلستی ہوٸی دھوپ اور سیدہ کی محبت کے سوإ کوٸی دوسرا نہ تھا۔شہدا نے عشق کے مفہوم کو بڑے وسیع معنوں میں نہ صرف استعمال کیا بلکہ عملاً عشق کی منازل کو عبور کرکے دیکھایا اور اسے تخلیقی جذبہ اور قوتِ ایمانی کا سرچشمہ قراد دیا۔یہ عشق کا جذبہ ہی ہے کہ جس سے انسان میں سوزودرد پیدا ہوتا ہے اور اسی سے زندگی میں جستجو اور تب وتاب پیدا ہوتی ہے، جو نٸے جہاں پیداکرنے کے لیے انسان کو مضطرب رکھتی ہے۔

مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ عاشقانِ خدا اپنے معشوق کی عشق میں جان کانذرانہ پیش کرنے کواصل حیات سے تعبیر کرتے ہیں۔عقل ایک حدتک ہی انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے کیونکہ وہ محدود ہے جبکہ عشق شک و شبہ سے نکال کر اشیإ کی باطنی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔خدا کے حضور ہر وقت دعاکریں کہ ہم تجھے عقل سے نہیں بلکہ عشق سے سمجھنا چاہتے ہیں۔خدا سے دعا کریں کہ ہمیں پرواز کرنا سیکھا تاکہ تیری بارگاہ میں اڑ کر پہنچ جاٸیں، ہمارے سینوں کو کشادہ کر تاکہ اُس آفاقی دنیا کے اسرار و رموز کو درک کر سکیں اور اپنے شہدإ کے خون کو ہماری رگوں میں جاری کر تاکہ زندگی کی ہوس نہ کریں۔

انکا کہنا تھا کہ بعض احباب نادانستگی میں بسااوقات یہ کہتےدیکھاٸی دیتے ہیں کہ شہدا زندگی سے بیزار تھے ، دنیا کی زرق برق سے ہر وقت نالاں رہتے تھے تو ایساہرگز نہیں ہے۔یہ ہزگز گمان مت آنے دیجیے کہ شہدإ زندگی سے بیزار تھے بلکہ انہوں نے دنیا سے دل نہیں لگایا جبکہ ہم دنیا کے دلدادہ لوگ ہیں ہمیں دنیا کی رنگینیاں بھی چاہیے اور شہادت بھی۔۔!!!شہادت اصل میں ہے کیا؟ یعنی انسان زندگی بسر کرے، اپنے واجبات اور فراٸض کوانجام دے فقط خدا کے لیے۔شہادت یعنی اگر خدا کی راہ میں جان دینا چاہتے ہو تو خدا کے لیے زندگی گزارو۔شہداٸے کربلا موت کیطرف رغبت کیوں رکھتے تھے ؟یہاں تک کہ امام عالی مقام فرماتے ہیں کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ویسے نہ میرے نانا رسولِ خداﷺ کو ملے اور نہ بابا اور بھاٸی حسن علیہ السلام کو۔یہی سوال صادق آلِ محمدسے پوچھا گیا کہ مولاامام حسین علیہ السلام کے اصحاب موت کو یقینی سمجھتے ہوٸےپھر بھی اُس کی طرف بڑھتےجا رہے تھے تو ایسا کیوں تھا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا; کیونکہ شبِ عاشور کے خطبے کے بعد اِنکے سامنے سے پردے اٹھ گٸے تھے اوروہ خود جنت کے نظاروں کو دیکھ رہے تھے، وہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف اقدام کر رہے تھے اور جنت اِنکے نزدیک ہوتی جارہی تھی۔ اس وجہ سے Carlyle نے Tragedy of Karbala میں لکھا;
The Campanions of Hussain were so braveand courageous that they defeated the death indeed.

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہی بات جب ہم مدافعینِ حرم کے حوالے سے کرتے ہیں تو یقین نہیں کیا جاتا ، وہ جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ سیدہ کے حرم کی حفاظت کے لیے پیش کیا وہ اپنے ہدف سے آگاہ تھے جانتے تھے کہ یہاں شہادت حتمی ہے۔شہادت اتفاق نہیں انتخاب ہے ایک آگاہانہ انتخاب کہ اگر وقت کے حسین علیہ السلام کوخون کا نذرانہ پیش کرنے کا موقع ملے تو قدم ڈگمگاٸے نہیں بلکہ کامل یقین کے ساتھ میدانِ عمل میں اتریں۔شہادت یعنی عشق اور عشق ہر ایک کو نہیں ملتا۔شہادت یعنی معراجِ مومن کچھ جوان خود شہادت کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ خوش نصیب ہیں وہ جوان کہ جنکا شہادت خود انتخاب کرتی ہے۔ہم خود سے سوال پوچھیں کہ اگر آج وقت کے یزید کے خلاف قیام کرنے کا موقع ملے تو کیا ہم نصرتِ امام کےلیے تیار ہیں؟ کیا ظہورکے اُس عظیم معرکے کے لیے خود کو آمادہ کر رہے ہیں کہ جسکے لیے خدا کی معشیت انتظار کر رہی ہے؟ امامِ وقت عج راستے میں ہیں کیا ہم تیار ہیں؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .