حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں مرجع عالیقدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے وکیل مطلق،شہرِ ممبئی کے امام جمعہ،مدیر جامعۃ الامام امیر المؤمنین نجفی ہاؤس حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے کہا کہ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت جہان عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور ناقابل جبران صدمہ ہے، وہی یہ شہادت اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ان کے منصوبوں کا جواب، ان کی پلاننگ کا جواب دشمنوں کے پاس نہیں تھا استکباری طاقتیں اپنے تمام وسائل کے باوجود اپنی تمام ٹیکنیک کے باوجود اپنی تمام مہارتوں کے باوجود ان کے روش کے مقابلے میں اپنے کو شکست خوردہ محسوس کرتی تھیں اور ان کے بعد ان کے پاس سردار قاسم سلیمانی کی ٹیکنیک اور ان کی روش کا کوئی جواب نہیں تھا اگر انکے پاس انکی ٹیکنیک کا جواب ہوتا تو اس طرح سے بے شرمانہ طور پر دوسرے ملک میں ان کو شہید نہ کیا جاتا۔
ممولانا موصوف نے فرمایا کہ خود ان کی شہادت کے تعلق سے جو بات بتایے گئی ہے کہ جب ان کی شہادت واقع ہورہی تھی تو استکباری طاقتیں اپنے یہاں بیٹھ کر کے اس منظر کو دیکھ رہی تھیں، یہ حرکت خود بتا رہی ہے کہ شہید سلیمانی کتنے عظمت تھے، اور انکی پلاننگ سے، انکی ٹیکنیک سے، انکے پروگرام سے انکی بینش سے انکی نگاہ سے استکباری طاقتیں کتنی زیادہ خوفزدہ تھیں۔
اور یہی اسلام کا طرہ امتیاز ہے جس طرح آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے فرمایا کہ ہم مسلمانوں کو نہ صرف میدانوں میں آگے ہونا چاہیے بلکہ سب سے زیادہ آگے ہونا چاہیے، ہم دوسروں کی تقلید نہ کریں بلکہ دوسرے ہماری تقلید کریں، تو اسی طرح سردا قاسم سلیمانی اپنی فوجی مہارتوں میں سب سے آگے تھے، استکباری طاقتیں چاہے وہ امریکہ کی طاقتیں ہو یا اسرائیل کی طاقتیں ہوں، انکی کتنی بھی فنی مہارتیں ہوں، یہ فنی مہارتیں جناب قاسم سلیمانی کے سامنے ہیچ نظر آتی تھیں۔ اور اسکی وجہ یہ تھی کہ دنیا کی ساری طاقتیں اپنے ماہرین پر اپنے سائنس دانوں پر بھروسہ کرتی ہیں لیکن لیکن سردار قاسم سلیمانی کا بھروسہ خدا پے تھا اور امام وقت پر تھا، وہ اپنے مسائل میں اپنی مشکلات میں ان سے مدد مانگتے تھے اور وہ انکی مدد کرتے تھے۔
یہی طریقہ کامیابی کا ہے کہ انسان کامیابیوں کے لیے اپنی مہارتوں کا اپنے تجربات پر بھروسہ کریں بلکہ اپنے تجربات کے لیے اور انکے عملی کرنے کے لیے خدا، رسول اور امام سے مدد مانگیں تاکے انکے تجربات کارگر ثابت ہوجائیں، یہ وہ نقطہ ہے جو اگر آج ہمارے ذہن میں آجاے کہ مہارتیں ضرور حاصل کریں اور یقینا حاصل کرنا چاہیے لیکن ان مہارتوں کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لیے اپنی استعداد پر بھروسہ کم کریں اور خدا کی عنایتوں پے بھروسہ کریں کیونکہ اگر خدا کی عنایتوں پے بھروسہ کرنے لگ جائیں گے تو ہمارے تجربات میں جو نقص رہے گا جو کمی ہوگی وہ خدا کی توکل اور خدا کی عنایتوں سے پوری ہوجاۓ گی اور امام کی عنایتیں اس نقص کو اپنے کرم سے پورا کردیں گے۔
شہید قاسم سلیمانی کا یہی کام تھا کہ انہوں نے خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پے بھروسہ کیا، امام وقت سے فریاد کی اور انہوں نے انکی مدد کی اور چونکہ قاسم سلیمانی کی طاقت، خدا پے بھروسہ اور توکل، امام وقت پے توکل تھا لہذا خدا آج بھی اس طرح باقی ہے اور امام علیہ السلام بھی اسی شان کے ساتھ باقی ہیں لہذا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کی قاسم سلیمانی کے چلے جانے سے محاذ خالی ہوجاے گا تو اسکی خام خیالی ہے، خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام وقت جس سردار کے ذہن میں چاہیں گے،اپنے خیالات ڈال دیں گے، جو چیزیں چاہیں ڈال دیں گے اور دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کے لیے ان کو راستے سے ہٹا بھی دیں گے۔
خداوند شہید قاسم سلیمانی کو شہداء اسلام کے ساتھ محشور فرمائے اور بقیہ نسلوں میں بھی قاسم سلیمانی جیسے ہی پیدا ہوں آج دشمن کو ایک سر کاٹنے کے بعد بھی سبھی قاسم سلیمانی نظر آتے ہیں، خدا انکے درجات کو بلند سے بلندتر فرمائے، شہداء کربلاء کے ساتھ محشور فرماے اور انکے خانوادے کو صبر جمیل عطا فرمائے۔