۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ مشکل حالات میں بھی اللہ پر توکل کرنا چاہیے اور دشمنوں کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ ان کے لیے کافی ہے اور بہترین مددگار ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ.سورة آلِ عِمْرَان، آیت 173

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لوگوں نے کہا: "لوگ تمہارے مقابلے کے لئے جمع ہو چکے ہیں، ان سے ڈرو" تو اس (بات) نے ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور انہوں نے کہا: "ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔"

موضوع: اس آیت کا موضوع مسلمانوں کی ثابت قدمی، اللہ پر بھروسہ، اور مخالفین کے خوف کے مقابلے میں ایمان میں اضافہ ہے۔

پس منظر:

اس آیت کا نزول غزوہ احد کے بعد ہوا۔ مسلمانوں کے دشمنوں نے انہیں ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ قریش مکہ ایک بڑی فوج کے ساتھ دوبارہ حملہ کرنے والے ہیں۔ یہ پیغام مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے بھیجا گیا تھا تاکہ وہ خوفزدہ ہو جائیں اور اسلام کی راہ سے ہٹ جائیں۔

تفسیر

لوگوں کا خوف دلانا:

"الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ"

مسلمانوں کو دشمنوں کی طرف سے ڈرایا گیا کہ "لوگ تمہارے مقابلے کے لیے جمع ہو چکے ہیں، ان سے ڈرو۔" اس کا مقصد ان کے حوصلے کو کمزور کرنا تھا۔

ایمان میں اضافہ:

"فَزَادَهُمْ إِيمَانًا"

اس خوف دلانے کی بات نے مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ کیا، بجائے اس کے کہ وہ ڈرتے، ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔

اللہ پر بھروسہ:

"وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ"

مسلمانوں نے کہا: "ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اللہ پر مکمل بھروسہ کیا اور کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کیا۔

ثابت قدمی اور بھروسہ:

اس آیت سے ثابت قدمی اور اللہ پر مکمل بھروسے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا جواب دشمنوں کے مقابلے میں ان کے ایمان کی مضبوطی اور اللہ پر یقین کا مظہر تھا۔

نتیجہ:

یہ آیت مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ مشکل حالات میں بھی اللہ پر توکل کرنا چاہیے اور دشمنوں کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ ان کے لیے کافی ہے اور بہترین مددگار ہے۔

مومنین کی مثال:

اس آیت میں ان مومنین کی مثال دی گئی ہے جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کی مشکلات یا خوف کے سامنے اپنے ایمان میں پختہ رہتے ہیں۔

یہ تفسیر ان مسلمانوں کی پختہ ایمانی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے جو ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور کسی بھی مخالف یا مشکل سے گھبراتے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راھنما، سورہ آل عمران

تبصرہ ارسال

You are replying to: .