حوزہ نیوز ایجنسی | دینِ مبین اسلام بنیادی طور پر اخوّت اور باہمی صلح پر استوار ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :"اِنّماالمُومِنُونَ اِخْوَۃ ٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخْوَیْکُمْ" [١]۔ لہذا اسلام مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کو پسند نہیں کرتا۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں اختلافات سے امت کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آیہ مجیدہ کے الفاظ ہیں کہ "اے صاحبان ایمان، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس کے تنازعات میں نہ الجھو, وگرنہ تمھاری بنیادیں کمزور اور ہوا اُکھڑ جائے گی، صبر و استقامت سے کام لو، بیشک خداوند متعال صاحبانِ استقامت کے ساتھ ہے۔" [٢]
اللہ کے نبیﷺکی پوری حیات طیبہ اہلِ ایمان کے دلوں کو جوڑنے میں صرف ہوئی۔ نبی اکرمﷺ نے صاحبان ایمان کو اپنی سیرہ رحمت کے ذریعے اکٹھا کیے رکھا، حتی کہ نبیﷺ نے اہل کتاب کے علاوہ مشرکین اور مختلف قبائل کو بھی معاشرتی ارتقاء کے لیے اپنے ساتھ ملایا۔ یہاں ہم باہمی اتحاد اور اخوت پر سیرت النبی (ص) کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے:
امت مسلمہ کا داخلی اتحاد:
نبی اکرمﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کے بعد مسلمانوں کے داخلی اتحاد کے لیے کئی عملی اقدامات کئے۔ آپ نے خدا پر ایمان اور باہمی اخوت کو محور قرار دے کر ایک طرف دو مہم قبائل اوس و خزرج کے درمیان دیرینہ دشمنی کو دوستی میں بدل دیا[٣] اور دوسری طرف تمام مسلمان مہاجرین و انصار، بادیہ نشینوں اور غلاموں کو رشتہ اخوت کے ساتھ منسلک کر دیا۔ نبیﷺ نے مدینے میں اخوت و برادری کی اعلیٰ مثال قائم کی، جس کی وجہ سے انصار مدینہ نے فرطِ ایمان و محبت میں اپنے اموال اور جائیدادیں تک بھی مہاجرین میں تقسیم کر دیں۔[٤] جناب بلال حبشی جیسے سیاہ فام غلام سے لے کر عرب سرداروں تک کو باہمی بھائی چارے اور مساوات کی صف میں لا کھڑا کیا۔ جس کو قرآن کریم نے ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ والذِینَ مَعهُ أَشِدَّاءُ علی الکفارِ و رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ، [٥] "محمد رسول اللہ اور جو ان کے ساتھ ہیں، وہ دشمن کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل ہیں۔" پیغمبر اسلام (ص) نے مسلمانوں کے آپسی اتحاد کے لئے جہاں مدینے میں اخوت اسلامی کی بنیاد رکھی، وہاں اخلاق حسنہ، بخشش، عفو اور وسعت نظری کی تبلیغ اور ساتھ اسوہ رسالت (ص) کا بہترین عملی نمونہ بھی پیش کیا، جس نے امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔
ارشاد خداوندی ہے کہ فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ۔ "(اے رسول) یہ مہر الہیٰ ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں، پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"[٦] نبیﷺ نے اپنی رحلت تک، مسلمانوں کے مابین داخلی وحدت کی کوشش جاری رکھی۔ آخری ایّام میں نبیﷺ پر بیماری کا شدید حملہ تھا، لیکن پھر بھی (ص) امام علی (ع) اور فضل بن عباس کے سہارے مسجد تشریف لے گئے اور اپنا خطبہ ان الفاظ پر تمام کیا کہ "مجھے تم سے شرک میں مبتلا ہونے کا خوف نہیں بلکہ مجھے دنیاوی امور میں تمھاری باہمی کشمکش اور تفرقے کا ڈر ہے۔"[٧]
دیگر ادیان کے ساتھ تعامل اور معاہدے:
اسلام معاشرے کے رشد و نمو کے لئے صلح و انسجام کی تاکید کرتا ہے۔ سیرت النبی (ص) اس کی اہمیت پر گواہ ہے۔ نبیﷺ نے ادیان ابراہیمی کے ماننے والوں کو کلمہ توحید پر اتحاد کی دعوت دی اور اسی طرح مشرکین کو مشترکہ انسانی اقدار کے دائرے میں لانے کی کوشش بھی کی۔ نبیﷺ حلف الفضول جیسے قبل از اسلام، قبائلی معاہدے کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اکثر کہتے تھے کہ اگر اس معاہدے کے مقابلے میں مجھے کوئی سرخ اونٹ بھی دے تو کم ہیں۔[٨] کیونکہ اس معاہدے کے ایک نکاتی ایجنڈے میں مظلوم کی حمایت اور اسے حق دلوانے پر زور دیا گیا تھا۔ اسی طرح میثاق مدینہ اور دیگر یہودیوں و عیسائیوں نیز قبائل کے ساتھ امن قائم رکھنے اور دفاعی معاہدے اس بات کا برملا اظہار ہیں کہ اسلام اور سیرت النبی (ص) میں معاشرتی وحدت کی شدت کے ساتھ تاکید موجود ہے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کہ جس کے بعض مندرجات ظاہراً مسلمانوں کو اپنی شکست کی صورت میں نظر آتے تھے، لیکن اللہ کے نبی (ص) نے دلوں کو جوڑنے کے لیے اس کڑوی حکمت کا راستہ بھی اختیار کیا۔[٩]
اتحاد کے راستے میں رکاوٹوں کا خاتمہ:
نبیﷺ نے جہاں اتحاد و وحدت کے لیے محبت و اخوت کا راستہ اختیار کیا، وہیں اس راستے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے سخت اقدامات بھی کئے۔ آپ نے انسانی یکجہتی کے راستے سے پے در پے قبائلی عصبیت، عہد شکنی، مفاد پرستی، خود محوری، سود خوری، انتقام، حسادت، منافقت اور جاہلانہ رسم و رواج جیسی بدترین رکاوٹوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔
رسول اللہ (ص) نے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے مختلف تبلیغی روشوں سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ قانون اور تلوار سے بھی کام لیا۔ آپ نے تسلسل کے ساتھ عہد شکنی کرنے والوں کو مدینے سے نکال باہر کیا اور قبائلی عصبیت کو ختم کرکے تقویٰ الہی کو بام بشر کا کتبہ قرار دیا، حسود اور منافقین کے چہروں سے نقاب کشائی کی اور مجرموں کو اسلامی حدود کے مطابق کڑی سزائیں دیں، یہاں تک کہ ہجرت کے نویں اور دسویں سال تک انسانی برادری کے راستے سے اکثر ایسی رکاوٹیں برطرف ہوچکی تھیں اور ریاست مدینہ باہمی اتحاد و انسجام کے ساتھ اجتماعی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئی تھی۔[١٠]
نتیجہ:
امت مسلمہ عالمی انسانی اتحاد اور وحدت پر مکمل ایمان رکھتی ہے۔ رسول اللہ (ص) کی سیرت میں امت مسلمہ کے باہمی اتحاد حتی غیر مسلموں کے ساتھ حُسنِ تعامل کے روشن پہلو موجود ہیں۔ ہم وحدتِ انسانی کیلئے سیرت النبیﷺ کے راہنما اصولوں پر عمل کرکے ایک الہیٰ اور خدا محور معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
استناد و منابع:
[١] حجرات آیہ 10
[٢] انفال آیہ 46
[٣] تاریخ تمدن، ویل ڈیورینٹ
[٤] تاریخ اسلام، اصغر منتظر القائم
[٥] سورہ فتح آیہ 29
[٦] آل عمران آیت 159
[٧] سیرہ ابن ھشام
[٨] تاریخ یعقوبی