تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی
حوزہ نیوز ایجنسی। زندگی کے بعد موت معین ہے کسی بھی شخص کا موت سے فرار ممکن نہیں ۔موت وعدہ الٰہی ہے اور قرآ ن پاک کے مطابق ایک ایک نفس کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔ اس دار الفانی میں بے شمار افراد پیدا ہوتے ہیں اور پھر عمر عزیز گزار کر اپنی اصل منزل کی جانب چلے جاتے ہیں ۔عزیز و اقارب اپنے عزیز کے چلے جانے سے رنج وغم میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن یہ غم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتا ہے۔مگر دنیا میں بعض ایسی عظیم الشان شخصیات بھی پیدا ہوتے ہیں جو روئے زمین پر اپنے معنویت اخلاق اور انسانیت کے نقوش چھوڑ کر جاتے ہیں جو ہر دل عزیز بن جاتے ہیں اور بیشمار انسانی نسلیں تادیر ان شخصیات کے افکار اخلاق و معنویت سے مستفید ہوتی رہتی ہیں ۔ان شخصیات کا چلے جانا کسی بڑے سانحے اور حادثےسے کم نہیں ہوتا ۔کیونکہ یہ عظیم المرتبت شخصیات خاص کمالات کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے کمالات میں بیداری اور دینداری کا اہم کردار ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک عظیم شخصیت شہید قدس قاسم سلیمانی ؒہے جنہوں نےاکیسویں صدی کے طاغوت کو اپنے بلند افکارات،عزم وحوصلہ اور مردانہ وار طریقے سے للکارا ۔مزاحمت کے تفکرات کو قوی کرکےعالم بشریت کو ایک ایسے ناسور سے نجات دلادی جن کےشریانوں میں فرعونی،یزیدی اور طاغوتی خون گردش رہا تھا ۔توحید کے نام پر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے یا پھر مسلمانوں کے صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے والے طاغوتی پیدوار ٹولے کو جہنم کا راستہ دکھایا ۔
شہید قاسم سلیمانی ؒکے اوراق حیات عارفانہ قائدانہ اور مجاہدانہ صفات سے بھرے پڑے ہوئے ہیں۔اور حیات اقدس کا ایک ایک پہلو مزاحمت اورروحانیت کی ترجمانی کررہا ہے۔ان پہلوؤں کا تذکرہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔آپ کاالٰہی وصیت نامہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سردار سلیمانی تقرب خدا کے ممتاز درجہ پر فائز تھے۔تقرب خدا،خلوص نیت،شرافت ،صداقت اور تقویٰ و پاکیزگی نے شہید کوکمال تک پہنچایا ۔اور ان اوصاف نے شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید بنادیا۔
قاسم سلیمانی ؒ فرد واحد نہیں تھے بلکہ ایک عہد اور ایک مکتب تھے جس نے مردہ اور خفتہ ضمیر مسلمانوںکو جگا جگا کر ان میں مزاحمت کی نئی روح پھونک دی ۔اور انہیں طاغوت کے ناپاک چالوں ،منحوس منصوبوں اور خطرناک سازشوں سے آگاہ کیا نہ فقط آگاہ کیا بلکہ ان میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا عنصرپیدا کرکےاسلامی دنیا پر آنے والی ایک بڑی آفت کو ٹال دیا۔
موجودہ صدی کی یہ عہد ساز شخصیت قوم کی تقدیر کا محافظ بن کر اٹھے ۔آپ کی تدبیروں آپ کے افکارات ،آپ کی جوانمردی،آپ کے بلند وبالا حوصلے اور آپ کے صبر ورضا نے طوفانوں کے رخ موڑ کرامت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگایا۔ اور کربلا کی وہ خونین تاریخ دہرائی جس میں یزید ملعون اور اس کے ہزاروں کارندےظاہری جیت کے باوجود رسوا اور خوارہوگئے۔صفحہ ہستی سے جن کا نام و نشان تک مٹ گیا اور امام عالی مقام اور آپ کے باوفا اصحاب وانصارتا روز ابد زندہ وجاوید بن گئے۔بلکہ عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل بن گئے۔
شہید سلیمانی خداد دار صلاحیتوں کے مالک ایک سماجی رہنما ، فوجی رہنما ،سیاست مدار،اور دین شناس رہنما تھے ۔قوم کے بے باک ،نڈراور جرائت مند نو جوانوں نے شہید سلیمانی ؒکی قیادت میں باطل کے خلاف جن جن محاذوں پر بندوقوں کے دھانے کھولے وہاں فتح ونصرت نے ان کے قدم چومے۔طاغوتی ،صیہونی اور سامراجی طاقتوںنےدین ناب محمدیؐ اور ایران کے خلاف دنیا بھر خصوصاً مشرق وسطیٰ میں محاذ کھولے تھے جس کے لئے داعش اور النصرہ فرنٹ جیسی سینکڑوں تنظیموں کا وجود بھی بخشا گیا۔اور انہیں جدید ساز و سامان سے لیس کرکے ایران کا گھیراو کرنے کے لئے مڈل ایسٹ کے مختلف علاقوں میں بٹھایا گیا ۔ شیطان بزرگ امریکہ ،برطانیہ،غاصب صیہونی ریاست اور اس کے حواریوں نے ملاؤں اور مفتیوں کو بھی ڈالروں میں خریدا تھا۔جنہوں نے اسلام کو بطوربدصورت اور متشدد چہرہ دکھانے کے لئےحربے اور ہتھکنڈے آزمائے یہاں تک کہ زنا کو جہاد النکاح کا نام دیکر کر اس کو جائز قرار دیا۔لیکن قاسم سلیمانیؒ جیسے مدبرقائد کے سامنے دشمن کی یہ تمام تدبیریںایک ایک کرکے ناکام ہوگئ۔ حاج قاسم خطے میں فکری اور انقلابی تحریک کو پروان چڑھا کر ایک ایسی تحریک کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے جسے شیطان بزرگ نے اپنے ناجائز اولاد کے ساتھ مل کر اور آل سعود کی مالی امداد سے آغاز کیا تھا۔دہشتگردوں کو اپنے آقاؤں کے ہمراہ شام و عراق کےمیدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔شکست اور ذلالت نے ان کا دامن نہ چھوڑا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے سب سے بڑے خونخوار دہشتگرد اورشیطان بزرگ کو افغانستان سے بھی بور وبستر گول کرنا پڑا۔
امریکہ جو کرہ ارض پر دہشتگردوں کی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی مدبرانہ قیادت اور قاسم سلیمانیؒ کے مستحکم ارداوں کے آگے طاغوتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے ۔شہادت کے بعد بھی سلیمانی کی تدبیریںایک ایک کرکے اس ناسور پر آفتیں بن کر نازل ہورہی ہیں اور یہی باعث بن رہا ہےا کہ امریکہ کی چنگیزیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔
شہید قاسم سلیمانی ؒ کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے کھبی بھی مذہبی، لسانی، قومی، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر ترجمانی نہیں کی بلکہ انسانیت کی بقا اور انسانیت کی آزادی کے خاطر دشمن کے خلاف محاذ پر نکلے ۔شہید سلیمانی قومی یکجہتی، سماجی انصاف، اور مساوات واخوت کے قائل رہنماتھے اور ان ہی بنیادوں پراپنے تعلقات استوار کرنے کا خواہشمندتھے۔اتحاد بین المسلمین کیلئے شہید قدس نہ صرف کوشاں رہے بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات اٹھائے جس سے مسلم دنیا کا مزاحمتی خیمہ کلمہ لا الہ کے جھنڈے تلے یک جٹ ہوگئے اور یک زبان ہوکر مرگ بر اسرائیل مرگ بر دشمنان اسلام کا نعرہ بلندکرتے ہوئے اس دہشتگرد پر میزائیلوں کی برسات کرتے رہے۔آپ کی یہ خصوصیت اور اعتدل سب سے نمایاں اور ممتاز ہے ۔شہید سلیمانی قدس شریف کی آزادی کے لئے بھی میدان محاذ پر جوانوں کے حوصلہ بڑھانے نکلے ان کی عسکری رہنمائی کرتے تھے اور شام و عراق میں بھی میدان کارزار کا سپہ سالار بن کر دن رات بیدار رہتے تھے۔مدافع حرمین بن کر آپ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی۔
نصرت الٰہی پر یقین رکھنے والے شہید قاسم سلیمانیؒ وہ نایاب عبقری شخصیت دور اندیش مفکر اور نڈر مجاہد تھے ۔جنہوں نے رضائے رب اور خدمت خلق جذبے کے تحت میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دئے نہ صرف جنگ بلکہ ہمیشہ علاقائی و عالمی سطح پر امن و استحکام کے قیام میںبھی ایک مثبت کردار ادا کیا ۔کرمان سے کربلا تک کے سفر میں شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلام اور انسانیت کی خدمت گزاری میں صرف ہوا ۔زندگی کے آخری سانس تک شہرت کی چکاچوند سے دور رہےریاکاری اور دکھاوےسے گریز کرتے تھے۔
شہید قاسم سلیمانی نے ولایت مداری میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتی ۔شہید قاسم سلیمانی رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے لیے مالک اشتر کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ رہبر معظم انقلاب نےحاج قاسم سلیمانی کی خدمات کے اعتراف میں انہیںاندہ شہید کے خطاب سے نوازا تھا۔رہبرمعظم انقلاب اسلامی نےشہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کے گھر جاکر افراد خانہ سے تعزیت کی اور اس موقع پر فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالی نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ نعمت حاج قاسم کو مبارک ہوجو اس عظیم نعمت کے حقدار تھے ۔
حاج قاسم سلیمانی شہادت کے مشتاق تھے۔آپ وصیت نامہ میں فرماتے ہیں کہ اے میرے مہربان خدا ! میرا بدن بیمار ہو رہا ہے ، کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص چالیس تیرے دروازے پر کھڑا ہوتا رہا ہے ، تم کیونکر اُسے قبول نہیں کرو گے ؟۔آج سے دو برس قبل3جنوری کو کرہ ارض کے سب سے بڑے سفاک اور خونخوار دہشتگرد امریکہ نے حاج قاسم سلیمانی کو ان کے دست راست شہید ابو مہدی مہندس اوردیگر ساتھیوں کے ہمراہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ڈرون حملےکے ذریعےشہید کیا۔
حاج قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا اصل مقصد خطے میں مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا تھا لیکن قاسم سلیمانی کے شہادت کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں کو واضع پیغام ملا کہ زندہ سلیمانی سے بڑھ کر شہیدسلیمانی ؒ ہر دل عزیز شخصیت بن گئے۔شہید سلیمانی ایک مکتب اور ایک نظریہ بن گیا جو دشمن کی آنکھوں میں تادیر کانٹے کی طرح کھٹکتا رہے گا۔