۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
شہید قاسم سلیمانی کا مکتب اور نئ اسلامی تہذیب پر بین الاقوامی آن لائن کانفرس

حوزہ/ شہید قاسم سلیمانی شہادت کے بعد اب وہ صرف ایک شخص نہیں رہے، لیڈر نہیں رہے، کمانڈر اور جرنیل نہیں رہے بلکہ انکے خون کی تاثر اس قدر گہری ہے کہ شہید قاسم سلیمانی ایک مکتب کی حیثیت سے ایک اصول کے طور پر مستقبل میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کیلئے رہنماء ہیں اور انکی زندگی، جدوجہد اور شہادت مکتب قاسم سلیمانی ایک اصطلاح اور قابل عمل تعلیمات کی شکل میں پیش کی جائیگی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 17 دسمبر 2020ء بروز جمعرات شہید قاسم سلیمانی کی پہلی برسی کی مناسبت سے العارف اکیڈمی اور ایران کی طرف سے قائم شدہ شہید قاسم سلیمانی کی برسی کروانے والے ادارے کے تعاون سے آن لائن ویبنار بعنوان "مکتب ِشہید قاسم سلیمانی اور اسکی خصوصیات و اثرات" پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں پاکستان سے معروف مذہبی اسکالر اور اُمت ِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی، قم سے معروف مذہبی اسکالر حجت الاسلام ڈاکٹر میثم ہمدانی اور تہران سے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے گفتگو کی۔ کانفرنس کی نظامت کے فرائض تہران یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر حسن رضا نقوی نے انجام دیئے اور تمام مقررین کی گفتگو کو براہ راست فارسی میں ترجمہ کرکے ریڈیو مقاومت ایران پر براہ راست نشر کیا۔ کرونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب آن لائن منعقد ہونے والی کانفرنس کے مقررین کے خطابات کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

1۔ ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے مکتبِ شہید سلیمانی کی تشریح کرتے ہوئے اُس کو مکتب ِامام خمینی کا تسلسل قرار دیا، جو کہ درحقیقت الہیٰ و توحیدی مکتب ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ تین شخصیات گزری ہیں، جو اپنی آئیڈیالوجی کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی سرحدوں سے ماوراء تھیں، جن میں جمال الدین افغانی اسد آبادی، شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران اور شہید قاسم سلیمانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے مکتب سلیمانی کی چھ خصوصیات کے اوپر مفصل گفتگو فرمائی، جن میں تقرب خدا و الہیت، ولایتمداری، مسلسل استقامت، عوامی ہونا، دشمن شناسی اور شہادت سے عشق شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قاسم سلیمانی نے اپنی اولاد کے لئے وسائل نہیں بنائے، وہ قیمتی سگاروں کے دھوئیں کے ساتھ اپنی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عوام کے بارے میں باتیں نہیں کرتے تھے، بلکہ شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ میدان میں اور عوام کے درمیان موجود رہتے تھے اور جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ اِس مکتبِ سلیمانی کو قبول کرے تو وہ لازمی طور پر اِس مکتب کی خصوصیات کو بھی قبول کرے۔

2۔ حجت الاسلام ڈاکٹر میثم ہمدانی
حجت السلام ڈاکٹر میثم ہمدانی نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے ایران کے اندر اور ایران سے باہر ہونے والے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کا پہلا اثر ایران کے اندر یہ ہوا کہ داخلی اتحاد و وحدت کو بہت زیادہ تقویت ملی اور جو لوگ بیرونی اشاروں پر انقلاب مخالف نعرے لگاتے تھے اور کہتے تھے کہ انقلاب کو سرنگوں کر دیں گے، ایرانی قومی وحدت نے اُن کو مایوس کر دیا ہے اور یہ شہید کی شہادت کے بدولت تھا۔ انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے جنازے نے نہ صرف ایران کی داخلی وحدت کو وجود بخشا بلکہ خارجی طور پر بھی عراق کے مختلف شہروں میں شہید قاسم سلیمانی و شہید ابو مہدی المہندس کے جنازوں نے یہ ثابت کیا کہ خارجی وحدت بھی موجود ہے۔ انہوں نے ایران کے اندر و باہر فتنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں بعض لوگ انقلابی فکر کے مقابلے میں دشمن کے ساتھ مذاکرات اور عقب نشینی کی بات کرتے ہیں، شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ایسے افکار کے مقابلے میں مقاومت کی فکر کو تقویت بخشی اور لوگوں نے درحقیقت شہداء کے جنازوں میں شرکت کرکے مقاومت کی فکر پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔

3۔ حجت السلام و المسلمین علامہ امین شہیدی
آخر میں حجت الاسلام و المسلمین علامہ امین شہیدی (سربراہ امت واحدہ پاکستان) نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ انسانیت کے لئے نمونہ عمل ہیں اور انہوں نے انسانیت کی نجات کے لئے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب سرحدوں سے ماوراء ہو کر اپنی جدوجہد تا دم ِشہادت جاری رکھی۔ علامہ امین شہیدی نے شہید قاسم سلیمانی کے خدا سے توسل، راز و نیاز، تقویٰ و پاکیزگی، نماز و عبادات پر روشنی ڈالی کہ اِن چیزوں نے شہید کو کمال تک پہنچایا، یہاں تک کہ وہ شام، لبنان، عراق، فلسطین، پاکستان، یمن، افغانستان حتیٰ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے جوانوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔

علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ عالمی استکباری طاقتیں یہ چاہتیں تھیں کہ وہ شہید قاسم سلیمانی اور ان کی فکر کو لوگوں کے دلوں سے نکال دیں، جس کے لئے انہوں نے اسرائیلی، عربی، برطانیہ اور امریکہ کے وسائل کا استعمال کیا، لیکن ناکام رہے۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ دشمن نے شہید قاسم سلیمانی کے بدن کو تو بظاہر حملہ کرکے شہید کر دیا، لیکن ان کی فکر اُنکی شہادت کے بعد اور زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی کی دشمن کے مقابلے میں اسٹریٹجی، برنامہ ریزی اور اقدامات بہت دقیق ہوتے تھے اور ایران کے چہرے کو عالمی سطح پر روشن کرنے کے لئے بھی ایک وزیر خارجہ کی طرح شہید سلیمانی نے بہت بڑا کردار کیا، وہ جنگی حربوں کے جاننے کے ساتھ ساتھ قرآن اور دعاؤں پر بھی گہرا اعتقاد رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ محاذ ِجنگ پر دوسروں کو بھی دعائیں پڑھنے کی تاکید کرتے تھے۔  مقدس مقدمات پر جا کر اپنی شہادت کی آرزو کے لئے گریہ کرنا، زیارت عاشورہ اور امام رضا ؑ کے حرم میں توسل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر شہادت کے عاشق اور روحانی و معنوی شخصیت تھے۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ایک فوجی جرنیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معلم، مبارز، متفکر، میدان عمل کے مجاہد اور اسلامی تمدن کا ایک نمونہ تھے، تمام ممالک کے لوگوں کے دلوں میں وہ موجود ہیں اور لوگوں کے لئے مادی و معنوی زندگی میں نمونہء عمل ہیں۔ علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کا خون جو بغداد ائیرپورٹ پر بہایا گیا، یہ خون اسرائیل کو نابود کرکے رکھ دے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .