۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے تحت اسلام آباد میں تکریم شہداء کانفرنس کا انعقاد:

حوزہ/ مجلس وحدت مسلمین ضلع راولپنڈی و اسلام آباد کے زیر اہتمام شہدائے مدافعان حرم شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس بالخصوص شہدائے پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تکریم شہداء کانفرنس کا انعقاد امام بارگاہ جامعۃ الصادق میں ہوا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، فرزندان شہدائے ملت، بزرگوں، نوجوانوں، بچوں، خواتین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/ مجلس وحدت مسلمین ضلع راولپنڈی و اسلام آباد کے زیر اہتمام شہدائے مدافعان حرم شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس بالخصوص شہدائے پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تکریم شہداء کانفرنس کا انعقاد امام بارگاہ جامعۃ الصادق میں ہوا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، فرزندان شہدائے ملت، بزرگوں، نوجوانوں، بچوں، خواتین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا کہ شہید سلیمانی کے نام سے دشمنان اسلام سخت خوفزدہ ہیں۔ سوشل میڈیا اور ویب پر فلٹرز لگائے گئے ہیں، تاکہ ایک عظیم شہید کے نام کو نشر نہ ہونے دیا جائے۔ مسلمانوں کے تمام مقامات مقدسہ مسلمانوں کے لیے واجب الاحترام ہیں۔ قاسم سلیمانی کا امت مسلمہ پر احسان ہے کہ اس نے کربلا معلیٰ اور شام کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کی۔ شہید قاسم سلیمانی کی جرات و استقامت کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا خواب دیکھنے والی ریاست اپنی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔ داعش کو اگر شام میں بدترین شکست نہ دی گی ہوتی تو ان کا اگلا ہدف پاکستان کی سرزمین ہوتا۔ ہر باشعور پاکستانی قاسم سلیمانی کی جرات مندانہ کوششوں کا احسان مند ہے۔

مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد نقوی نے کانفرنس کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج اس شہید کی یاد منائی جا رہی ہے، جس کا قبیلہ انسانیت تھا۔ شہید قاسم سلیمانی مظلوموں کی آس تھے۔ انہوں نے مظلومین کو ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر سکھایا۔

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء نثار فیضی نے شہدائے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید جن عظیم مقاصد کی تکمیل میں اپنی زندگی گزارتا ہے، اس کی شہادت سے ان مقاصد کو مزید نکھار ملتا ہے۔ مقاومتی تحریکوں کے باعث امت مسلمہ کے وقار اور طاغوت و استعمار پر دبدبے میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم اپنے شہداء کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ان کے مشن کو آخری دم تک جاری رکھا جائے گا۔

علامہ احمد اقبال بہشتی نے کہا کہ شہداء کو یاد رکھنے والی قومیں ہی زندہ رہتی ہیں۔ جن شہداء کی یاد میں یہ کانفرنس منعقد کی گئی، وہ کمال کی راہوں پر گامزن تھے۔ انہوں نے خون دے کر بہترین معاشرے کی آبیاری کی۔ شہید عارف حسینی، شہید قاسم سلیمانی اور دیگر گراں قدر شہداء ایک عطر کی شیشی کی مانند ہیں، جن کی خوشبو ٹوٹنے کے بعد زیادہ تیزی سے پھیلی ہے۔

علامہ سید محمد علی نقوی نے کہا کہ شہداء کا اللہ تعالیٰ کے ہاں عظیم مقام ہے۔ وہ زندہ ہیں اور خدا کے ہاں رزق بھی پاتے ہیں۔ شہادت کا رتبہ مقدر والوں کے حصے میں آتا ہے۔ شہید مکمل ادراک اور احساس کے ساتھ بلند اہداف کے حصول کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ دین کے لیے جان قربان کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں

علامہ سید یاسر سبزواری نے کہا کہ شہداء کو یاد کرنے سے جذبہ شہادت کو تقویت ملتی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی کو شہادت کے لیے اس طرح پیش کیا، جس طرح کربلا میں شہزادہ قاسم علیہ السلام نے خود کو پیش کیا تھا۔ قاسم سلیمانی نے کربلا کی پیروی کا عملی اظہار کیا۔

علامہ شریف نفیس نے کہا کہ ہم حسین علیہ السلام کی ملت ہیں۔ ہم ملتِ شہادت ہیں۔ ہماری زندگی کا مقصد عہد شہادت کو پورا کرنا ہے۔ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے ماننے والے زندگی جیسی قیمتی ترین چیز کا سودا شہادت کے سوا کسی دوسری بے قیمت چیز کے عوض کبھی نہیں کرتے۔

ایم ڈبلیو ایم ضلع اسلام آباد کے سیکرٹری جنرل ظہیر نقوی نے خطاب کرتے ہوئے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی جدائی وہ زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ ہمارا تعلق ان شہداء سے ہے، جن کی موجودگی دشمنان اسلام کو خائف رکھتی تھی۔

کانفرنس کے دوران شاعر اہلبیت پروفیسر تنویر حیدر، اعزاز حیدر نقوی، زوار حسین بسمل نے اپنے اپنے انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پر مولانا علی اکبر کاظمی نے شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی، وطن عزیز کی خوشحالی، امت مسلمہ کے اتحاد اور اسلام دشمن استکباری و طاغوتی قوتوں کی نابودی کے لیے دعا بھی کروائی۔ ملک اقرار حسین، ارشاد بنگش اور مولانا ضغیم عباس کانفرنس کے دیگر منتظمین میں شامل تھے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .