۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
علامہ ارشاد علی

حوزہ/ مکتب سلیمانی کو اپنا کر ہی امت مسلمہ اپنا راستہ تلاش کرسکتی ہے۔ ان شہداء نے ملت کو ایک گائیڈ لائن فراہم کر دی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالم اسلام کے عظیم سپاہ سالار اور مدافع مقدسات حاج سردار شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور انکے رفقاء کی پہلی برسی کی آمد کے سلسلے میں علامہ ارشاد علی، مجلس وحدت مسلمین کے دیرینہ مسئولین و ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے مقامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام اور خاص طور پر مسلم ممالک کے عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ کون امت مسلمہ کا ہمدرد ہے اور کون غدار۔ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات تو بہت پرانے ہیں لیکن منظر عام پر اب آئے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے، مجھے ان لوگوں کی سوچ پر حیرت ہوتی ہے کہ جو سعودی عرب کو اسلام کا ٹھیکے دار سمجھتے تھے۔ دراصل سعودی عرب ہی امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کو سب سے زیادہ مدد اور تعاون فراہم کرنے والا نام نہاد اسلامی ملک ہے۔ ان ممالک نے اسرائیل کیساتھ تعلقات کا اعلان کرکے نہ صرف مظلوم فلسطینیوں بلکہ قبلہ اول کیساتھ بھی غداری کی ہے، انہیں خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔

علامہ موصوف نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد آزادی قدس تحریک پر کوئی فرق پڑیگا۔؟ کے حوالے سے کہا کہ جو شہید قاسم سلیمانی کے حصے کا کام تھا، وہ شہادت سے بہت پہلے کرچکے تھے، ان کی آزادی قدس کیلئے خدمات سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے جذبہ کو تقویت بخشی، انہوں نے آزادی قدس کی تحریک کو تقویت بخشی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی آنکھ کا کانٹا تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں، وہ اسلام دشمن قوتوں کیلئے موت کا پیغام تھے، ان کے مزموم عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چلے گئے تو قدس کے مسئلہ پر اس کا کوئی اثر پڑے گا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی شہادت سے آزادی قدس کی تحریک کو مزید مضبوط کرگئے ہیں۔

انہوں نے سردار قاسم سلیمانی کی  شہادت کے بعد انکے چاہنے والے دنیا کے ہر کونے سے منظرعام پر نظر آرہے ہیں کے تعلق سے بیان کیا کہ جب نیت نیک ہو اور آپ جو بھی کریں وہ خدا کی رضا کیلئے ہو تو خدا آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور آپ کے دشمن کے دلوں میں آپ کا خوف، ایسا ہی جنرل سلیمانی کیساتھ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اہلبیت (ع)، صحابہ کرام اور دیگر مقدس ہستیوں کے مزارات کی حفاظت کرنے میں جنرل سلیمانی کا سب سے اہم کردار تھا، اسی وجہ سے ان کے چاہنے والے ایران سے باہر بھی موجود ہیں۔ اگر پاکستان ہی کی مثال لیں تو یہاں بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو جنرل سلیمانی سے ملے ہونگے، لیکن مدافع حرم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ان کے لاتعداد چاہنے والے موجود ہیں۔ جس کا اظہار آپ نے ان کی شہادت کے موقع پر دیکھ لیا ہوگا۔

انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کے بعد خطہ میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے امریکی و صیہونی عزائم پورے ہوسکیں گے؟ کے تعلق سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے اس داعش کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، جس کے پیچھے اربوں ڈالر اور کئی دہائیوں کی منصوبہ بندی تھی۔ امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کا یہ منصوبہ جنرل سلیمانی نے خاک میں ملا دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خطہ سے دہشتگردی کو ختم کرنے میں جنرل سلیمانی کا کردار کلیدی ہے۔ خطہ کے ممالک کو تو جنرل قاسم سلیمانی کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا کہ ان کی وجہ سے داعش کو عراق، شام میں شکست ہوئی۔ امریکہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اب بھی خطہ کے امن و امان کو خراب کرنے کے درپے ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ اسے اس بار بھی شکست کا ہی سامنا کرنے پڑے گا۔ اگر یہ خائن عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں اور امریکہ کے ہر حکم پر لبیک کہہ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوگا۔ رہبر ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی قیادت میں خدا کے پاک بندے ان ناپاک عزائم کو ضرور خاک میں ملائیں گے۔

پاکستان کے برجستہ عالم دین نے شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی پہلی برسی قریب ہے، انکے اعلانیہ قاتلوں کے خلاف کارروائی تو دور اقوام متحدہ یا دیگر عالمی ادارے آواز تک بلند نہ کرسکے، کیا امریکہ کیلئے کوئی قانون یا قاعدہ نہیں۔؟ اس سوال کے جواب میں کہا کہ اقوام متحدہ تو امریکہ کے زیر اثر ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اقوام متحدہ عالمی قوانین کی اس خلاف ورزی پر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرتا، پوچھا جاتا کہ آپ نے ایک ملک کا جرنیل سرعام کیسے مار دیا۔؟ اگر کوئی امریکہ کا جرنیل مار دیتا تو کیا دنیا کا یہ ردعمل ہوتا۔؟ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں دہرا معیار ہے۔ کم از کم مسلم ممالک کو امریکہ کی اس بدمعاشی پر ایکشن لینا چاہیئے تھا۔ اگر پاکستان کی بات کروں تو اس حوالے سے ہماری حکومت کا موقف بھی بہت کمزور تھا۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر امریکہ کیخلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی، اس کی مرضی ہے کہ یہ جب چاہے کسی ملک پر حملہ کر دے، کسی ملک کے جرنیل کو مار دے، کسی بھی ملک پر قبضہ کرلے، کیا اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؟

آخر میں شہید سلیمانی، شہید ابو مہدی اور انکے رفقاء کی پہلی برسی کے موقع پر امت مسلمہ کیلۓ کیا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں یہی گزارش کروں گا کہ دنیا ان ہستیوں کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھے، یہ کسی ملک یا کسی خاص مسلک کے نمائندے نہیں تھے، یہ عالم اسلام کے مجاہد تھے۔ انہوں نے اسلام کے مفاد کی جنگ لڑی ہے، وہ شہید ہوئے ہیں، ان پر ظلم ڈھایا گیا، عالم اسلام کو چاہیئے کہ دوست اور دشمن میں فرق کرے۔ امریکہ اور اسرائیل کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، ان شہداء نے اسلام کی خاطر قربانی دی۔ ان شہداء کی قربانی کو یاد رکھنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا امت پر قرض ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مکتب سلیمانی کو اپنا کر ہی امت مسلمہ اپنا راستہ تلاش کرسکتی ہے۔ ان شہداء نے ملت کو ایک گائیڈ لائن فراہم کر دی ہے۔ خدا ان عظیم شہدء کے درجات مزید بلند کرے اور ہمیں انکا مشن مکمل کرنے کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .