۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
زینبیون

حوزہ / پاکستانی فعال ثقافتی خاتون کارکن محترمہ زرین فاطمہ مطہری نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا: ایک بین الاقوامی کانفرنس جس میں ہماری حاج قاسم سلیمانی سے انتہائی صمیمی ملاقات ہوئی، انہوں نے اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا "شہداءِ زینبیون کی آواز اور جنگی داستانوں کو دنیا تک پہنچاؤ"۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کے مطابق، "زنبییون بہت اچھی طرح سے جنگ کرتے ہیں؛ وہ بہت اچھی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے والد، ماؤں اور اہل خانہ کو میرا سلام کہنا"۔ یہ جملے ایرانی سپریم لیڈر مقام معظم رہبری کی اس تقریر کا حصہ تھے جو انہوں نے 21 نومبر 2016ء کو شہداء مدافع حرم میں سے ایک کے اہل خانہ سے خطاب کے دوران ارشاد فرمائے تھے۔

جب یہ خبر آئی کہ شام میں تکفیری دہشت گرد شیعوں کو قتل و عام کر رہے ہیں تو بہت سے پاکستانی طلباء اور نوجوان شام میں اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کے حرم کے دفاع کے لیے شام جا کر تکفیری دہشت گردوں سے لڑنا چاہتے تھے لیکن بعض حساس مسائل کی وجہ سے یہ امکان باآسانی میسر نہیں تھا۔

اب شام میں فتنہ اور جنگ کے خاتمے کے بعد زینبیون کی جرات و شہامت کی داستانیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ شہید حاج قاسم سلیمانی زینبیون جنگجوؤں کی بہادری اور شہامت کا اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے۔

پاکستانی فعال ثقافتی خاتون کارکن "محترمہ زرین فاطمہ مطہری" نے گذشتہ چند سالوں سے شہدائے زینبیون کی سوانح حیات پر مبنی کتابوں کا ترجمہ کر کے حاج قاسم کے مشورے اور تاکید پر عمل کیا ہے۔

زینبیون کے لئے حاج قاسم سلیمانی کی تاکید / شہداءِ زینبیون کی آواز اور جنگی داستانوں کو دنیا تک پہنچاؤ

حوزہ نیوز کے بین الاقوامی رپورٹر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے حاج قاسم سے اپنی ملاقات کی یادیں اور اپنی ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کو مجاہدین اور شہداءِ زینبیون کے اہل خانہ کی خدمت کے لیے وقف کرنے جیسے مسائل کو بیان کیا ہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ: برائے کرم پہلے اپنا تعارف کروائیں اور اپنی اہم ترین سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت کریں۔

محترمہ زرین فاطمہ مطہری: میں زرین فاطمہ مطہری ہوں، جامعۃ المصطفی سے تفسیر قرآن کی گریجویٹ ہوں۔ میں پشتو زبان میں ہادی ٹی وی میں بطور مذہبی ماہر بھی پروگرام کرتی ہوں۔ 2016ء میں، میں زنبییون بریگیڈ کی ثقافتی نمائندہ کے طور پر بھی خدمات انجام دی چکی ہوں۔

حوزہ: حاج قاسم سلیمانی سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بتائیں۔

محترمہ زرین فاطمہ مطہری: الحمدللہ، 2016ء میں، میں نے مشہد میں " کنگره بین المللی مدافعان حرم مهاجر در مشهد" (یعنی مشہد میں موجود مہاجرین مدافعان حرم کی بین الاقوامی کانفرنس) کے نام سے منعقدہ ایک کانفرنس میں زینبیون کے اوصاف کے بیان میں حاج قاسم سلیمانی کی موجودگی میں ایک تقریر کی۔ اس پروگرام کے بعد حاج قاسم سلیمانی نے ایک شخص کو ملاقات کے لیے کہہ کر بھیجا۔ خوش قسمتی سے، میری اور میرے شوہر کی حاج قاسم سلیمانی سے بہت صمیمی ملاقات ہوئی۔ ہم نے ایک ہی میز پر اکٹھے دن کا کھانا کیا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم نے اتنے عظیم جنرل کے ساتھ ٹیبل شیئر کی ہے اور اس دوران میں گویا خود پر یقین نہیں کر رہی تھی کیونکہ پاکستان میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز کسی جنرل سے ایسا حسنِ سلوک کبھی دیکھا نہیں تھا۔

حاج قاسم کا اپنی انگوٹھی تحفہ میں دینا اور ان کی نصیحت کی داستان

حاج قاسم کی عاجزی میرے لیے حیران کن تھی۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بالکل اپنے بچوں جیسا سلوک کیا اور اپنے سابق فوجی کے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "خانم مطہری! آپ کی لیاقت اور شائستگی اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن میرے پاس فعلا صرف یہی انگوٹھی ہے جو میں آپ کو دے رہا ہوں"۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے اور میں نے ان سے کہا کہ "مجھے بھی آپ سے کوئی تقاضا نہیں ہے، مجھے صرف آپ کی دعائیں چاہئیں اور آپ جہاں بھی جائیں میرے لیے دعا کریں"۔ ان کی عاجزی میرے لیے سبق آموز تھی اور مجھے اس دنیا میں واحد اعزاز جو حاصل ہے کہ اس سید شہداء مقاومت کی دعائیں میرے شاملِ حال ہو گئیں۔

زینبیون کے لئے حاج قاسم سلیمانی کی تاکید / شہداءِ زینبیون کی آواز اور جنگی داستانوں کو دنیا تک پہنچاؤ

اس بین الاقوامی کانفرنس میں، جہاں میں نے حاج قاسم سے صمیمی ملاقات کی، وہاں انہوں نے ایک بار اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کیا اور مجھ سے کہا کہ "شہداءِ زینبیون کی داستانیں دنیا تک پہنچاؤ اور وہ مثالیں اور کامیابیاں جو انہوں نے شام میں سمیٹی اور چھوڑی ہیں"۔ میں حاج قاسم کا یہ تبصرہ اور ان کی تاکید کو کبھی نہیں بھول پاؤں گی۔

حوزہ: اس ملاقات کے بعد آپ شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو کیسے دیکھتی ہیں؟

محترمہ زرین فاطمہ مطہری: حاج قاسم سے صمیمی ملاقات کے بعد اور ان کی تمام تر عاجزی اور انکساری کو دیکھ کر میں ان کی عظیم اور متواضع شخصیت کی گرویدہ ہو گئی۔ حاج قاسم سے محبت اور عقیدت میرے خون میں شامل ہو گئی تھی۔ مشہد سے واپسی کے بعد میں نے مسلسل گیارہ راتیں حاج قاسم کو خواب میں دیکھا۔ اس باافتخار ملاقات کے صرف 2 ماہ بعد مجھے پہلی بار حاج قاسم نے فون کیا، میں حیران تھی کہ انہوں نے میرا نمبر کہاں سے لیا؟ کیونکہ میں نے اور میرے خاوند نےتو انہیں اپنا نمبر نہیں دیا تھا۔

حاج قاسم سے پہلی فون پر گفتگو نے مجھے حیران کر دیا

سلام دینے کے بعد انہوں نے کہا: حاج خانم آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے جواب دیے بغیر پوچھا معاف کیجئے گا، آپ؟ وہ چند سیکنڈ کے لیے بالکل خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر پوچھا، معذرت خواہ ہوں، میں نے آپ کو پہچانا نہیں! انہوں نے کہا "میں سلیمانی ہوں"۔ میں نے تھوڑا سخت لہجے اور تعجب میں ان سے پوچھا "کون سلیمانی؟" وہ پھر چند لمحوں کے لئے بالکل خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر پوچھا، "سوری، آپ کون سے سلیمانی ہیں؟" انہوں نے دھیمی آواز میں جواب دیا، "میں حاجی قاسم سلیمانی ہوں"۔ میں نے جیسے ہی ان کی آواز پہچانی تو عرض کی "حاج آقا، میں انتہائی شرمندہ ہوں اور معذرت خواہ، میں نے آپ کی آواز نہیں پہچانی، میں نے آپ سے اس طرح بات کی، خدارا مجھے معاف کر دیجئے گا"۔ انہوں نے کہا کہ "آپ نے کچھ ایسا نہیں کیا جس پر آپ کو معافی کی ضرورت ہو"۔

میں نے فوراً کہا "حاج آقا! میں گیارہ دن سے مسلسل آپ کو خواب میں دیکھ رہی ہوں"۔ ان کا دعائی انداز میں کہنا تھا کہ "ان شاء اللہ، عاقبت بخیر ہوں"۔ میں نے عرض کیا "کیا آپ اپنی والدہ محترمہ کو میرے پاس قم میں لا سکتے ہیں؟ تاکہ میں ان کی خدمت کر سکوں؟ "جب آپ اپنی والدہ کے پاس آئیں گے تو میں آپ کی مزید زیارت کر پاؤں گی"۔ تو حاج قاسم نے کہا: "میری والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ہے"۔

اگر حاج قاسم شہداء مقاومت کے سردار بنے ہیں تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں سوئی کے ناکے اور سرے کے برابر بھی غرور، تکبر اور خودخواہی موجود نہیں تھی۔ وہ "انما المومنون اخوۃ" کی بہترین مثال تھے۔ اپنی شہادت کے وقت تک جب بھی وہ ایران میں ہوتے تو ہفتے میں ایک یا دو بار فون ضرور کرتے یا پیغام بھیجتے اور میرے اور میرے بچوں کے بارے میں خیریت دریافت کرتے۔

اس قالین کی داستان جو حاج قاسم تک نہ پہنچ پائی

2018ء میں حاجی قاسم سلیمانی کی سالگرہ کے موقع پر، میں نے اپنی وسعت کے مطابق اپنے ہاتھ سے قالین پر ایک نقش کو بُنا تھا۔ ایک دن دوپہر تقریباً 3 بجے کے لگ بھگ میں بہت تھکی ہوئی تھی، لیکن پھر بھی وہی قالین بُن رہی تھی۔ میں نے اپنے موبائل کی آواز سنی دیکھا تو حاج قاسم کا پیغام تھا جس میں فارسی میں لکھا ہوا تھا "سلام، خستہ نباشید"(فارسی میں سلام کے بعد حال احوال پوچھنے کا محترمانہ طریقہ؛ لفظی معنی ہو گا "تَھکنا مت")۔

میں بہت حیران ہوئی، ایسا جیسے وہ مجھے قریب سے دیکھ رہے ہوں کہ میں کتنی تھکی ہوئی ہوں لیکن میں بُنائی میں مصروف ہوں۔ ان کے جواب میں میں نے لکھا کہ "درماندہ نباشید...زندہ و سلامت باشید" (دعائیہ جملے)۔ میں نے انہیں بتایا کہ "میں آپ کی سالگرہ کے لیے قالین پر نقش صلوات بُن رہی ہوں..." تو حاج قاسم نے کہا "کیوں زحمت کر رہی ہیں؟ اس طرح آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں" ۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ یہ قالین ان تک پہنچاؤں لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ چونکہ حاج قاسم کی جان کو خطرہ تھا اس لیے میں نے ان سے ملاقات کا وقت نہیں لیا اور اسی خوف نے مجھے وہ قالین پہنچانے سے قاصر کر دیا جو میں نے ان کے لیے بُنا تھا۔

زینبیون کے لئے حاج قاسم سلیمانی کی تاکید / شہداءِ زینبیون کی آواز اور جنگی داستانوں کو دنیا تک پہنچاؤ

حوزہ: حاج قاسم سے ملاقات کے بعد آپ کی سرگرمیوں میں کیا تبدیلی آئی؟

محترمہ زرین فاطمہ مطہری: اس دن سے، میں نے شہداء زینبیون کے خاندانوں کی خدمت کرنے کا ارادہ کیا۔ 2017 سے 2019ء تک میں نے شہدائے زینبیون کی سوانح حیات پر پانچ کتابوں کا پشتو سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ نجمہ پولارہ (شہید سید افتخار حسین کی سوانح عمری)، "مسافر اگست" (شہید حشمت علی شاہ کی سوانح عمری)، کربلا زندہ باد (شہید ثاقب حیدر المعروف "شہید کربلا" کی سوانح حیات)، پہلے کمانڈر "شہید نوروز علی المعروف شہید درویش" کی سوانح حیات؛ جو کہ ابھی تک شائع نہیں ہوئی، کمانڈر شہید امتیاز حسین کی سوانح عمری جو زیرِ طبع ہے اور پہلا رسالہ (مجاہدانِ عارف کہ جن کا جذبہ حسینی ہے) ان کاموں اور کتابوں میں شامل ہیں جن کا میں نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔

اسی طرح میں نے بہشتِ معصومہ (س) میں مدفون چار روحانی شہداء کے بارے میں ڈاکومنٹری بھی بنائی۔ یہ دستاویزی فلمیں زینبیون بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے ان روحانی شہداء کی سوانح عمری پر مبنی ہیں جنہیں میں نے قم کی قومی ٹی وی چینل کی رپورٹر محترمہ خانم کریمیان کے تعاون سے اردو اور پشتو میں تیار کیا اور پھر ان کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ ان دستاویزی فلموں میں شہید سید تہذیب الحسن نقوی، سید عدیل حسین (خوشبو علی)، سید رضوی اور حشمت علی شاہ کی داستانیں شامل ہیں۔

زینبیون کے لئے حاج قاسم سلیمانی کی تاکید / شہداءِ زینبیون کی آواز اور جنگی داستانوں کو دنیا تک پہنچاؤ

حوزہ: زینبیون کے ثقافتی شعبے میں آپ کیا سرگرمیاں انجام دیتی ہیں؟

محترمہ زرین فاطمہ مطہری: زینبیون کے ثقافتی شعبہ نے 2016ء میں حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا میں "شہید اور شہادت کی معرفت" نامی کورسز کی کلاسز کے انعقاد سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ میں نے بھی ان کلاسوں میں حصہ لیا اور آخر میں انہوں نے مجھے شیلڈ بھی پیش کی۔ شہداء کے خانوادہ کے لیے فارسی زبان کے کورسز کا انعقاد زینبیون کے ثقافتی شعبے کی دیگر سرگرمیوں میں سے ایک ہے تاکہ یہ لوگ یہاں اپنے مسائل بہتر طریقہ پر حل کر سکیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں شہداءِ زینبیون اور مجاہدین کے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف ہوں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .