بدھ 24 دسمبر 2025 - 19:10
دعای «یا من أرجوه» کے آخر میں دائیں ہاتھ کی حرکت کی وجہ کیا ہے؟

حوزہ/ دعائے «یا من أرجوه لکل خیر» ماہِ رجب کی معتبر دعاؤں میں سے ہے، جس کے ساتھ امامؑ کی جانب سے ایک خاص عملی انداز بھی منقول ہے۔ روایتی مصادر اس عمل کی جزئیات اور اس کے معنوی فلسفے کو واضح کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دینی سوالات کے جوابات کا قومی ادارہ نے اس سوال ’’ماہِ رجب کی دعا کے آخر میں دایاں ہاتھ کیوں ہلایا جاتا ہے؟ اس کی حکمت کیا ہے؟ کا جواب دیا ہے۔

ادارے کے مطابق، عبادات میں ہم اصل میں علت اور فلسفہ تلاش کرنے کے پابند نہیں ہوتے، کیونکہ اکثر عبادات کی حقیقی حکمت انسانی عقل کی عام سطح سے بالاتر ہوتی ہے۔ عبادت کی اصل روح اللہ کے سامنے تسلیم و اطاعت اور بلا چون و چرا فرمانبرداری ہے، اگرچہ ان امور میں غور و فکر اور عقلی تدبر کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

عبادت کے باب میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ خودساختہ نہ ہو، بلکہ رسولِ خدا (ص) یا ائمۂ معصومینؑ سے منقول ہو۔ ہم عبادات میں دراصل معصومینؑ کے عملی طریقے کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی عبادت کو خاص انداز سے انجام دیتے تھے تو یقیناً وہ طریقہ خدا کے نزدیک محبوب اور حکمت پر مبنی ہے، چاہے ہم اس حکمت کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں۔

دعائے «یا مَن أَرجُوہُ لِکُلِّ خَیر…» ایک معتبر دعا ہے جسے تمام معروف محدثین اور دعاؤں کے مجموعہ تیار کرنے والے علماء نے نقل کیا ہے۔ یہ دعا ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، خاص طور پر ماہِ رجب میں صبح و شام اور نمازوں کے بعد اس کی تلاوت وارد ہوئی ہے۔

البتہ اس دعا کے متن اور اس کے پڑھنے کے طریقے کے بارے میں معصومینؑ سے مختلف نقلیں ملتی ہیں۔

ایک روایت کے مطابق، جب امامؑ نے دعا کو «وَزِدنی مِن سِعَةِ فَضلِکَ یا کریم» تک پڑھا تو آپؑ نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا:

«یا ذَا الجَلالِ وَالإِکرام، یا ذَا النَّعماءِ وَالجُود، یا ذَا المَنِّ وَالطَّول، حَرِّم شَیبَتی عَلَی النّار»

اس کے بعد آپؑ نے اپنا ہاتھ داڑھی مبارک پر رکھا اور اس وقت تک نہ ہٹایا جب تک ہاتھ کا پچھلا حصہ آنسوؤں سے تر نہ ہو گیا۔

ایک دوسری روایت "جسے مرحوم شیخ عباس قمیؒ نے مفاتیح الجنان میں اختیار کیا ہے اور جو خاص طور پر ماہِ رجب سے متعلق ہے" میں آیا ہے کہ:

ایک شخص نے امامؑ سے دعا کی درخواست کی، تو امامؑ نے فرمایا: اس دعا کو لکھ لو۔ پھر آپؑ نے دعا کو «وَزِدنی مِن فَضلِکَ یا کریم» تک پڑھا۔

راوی بیان کرتا ہے: امامؑ نے بائیں ہاتھ سے اپنی داڑھی مبارک کو تھاما اور دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ذریعے پناہ طلب کرنے کی کیفیت اختیار کی، اور اسی حالت میں دعا پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دعا کا آخری حصہ «یا ذَا الجَلالِ وَالإِکرام…» تلاوت فرمایا۔

اس روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عمل آج مومنین کے درمیان مشہور ہے "یعنی صرف دعا کے آخری حصے میں ہاتھ ہلانا" وہ بعینہٖ امامؑ کے عمل کے مطابق نہیں، کیونکہ امامؑ نے ابتدا سے آخر تک اسی کیفیت میں دعا پڑھی۔

حتیٰ کہ شیخ عباس قمیؒ نے بھی مفاتیح میں دعا کا مکمل متن اسی انداز میں نقل کیا ہے، جو عوام میں رائج طریقے سے مختلف ہے۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ عمل امامؑ کا ذاتی طریقہ تھا، اور روایت میں یہ نہیں آیا کہ آپؑ نے دوسروں کو بھی اسی طرح کرنے کی صراحتاً ہدایت دی ہو۔ تاہم چونکہ اس سے منع بھی نہیں کیا گیا، اس لیے رجاءً (ثواب کی امید سے) ایسا کرنا شرعاً درست ہے۔

جہاں تک اس عمل کی حکمت کا تعلق ہے، تو اتنا واضح ہے کہ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی، انکساری اور پناہ طلب کرنے کی کیفیت کو ظاہر کرنا ہے۔ یہ عمل بندے کی مکمل فروتنی اور خدا کی عظمت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی علامت ہے۔

اسی بنا پر بعض علماء نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ کیفیت اس انداز سے مشابہ ہو سکتی ہے جس میں کوئی جانور اپنے مالک کے سامنے عاجزی ظاہر کرتا ہے۔ اس تشبیہ کا مقصد صرف ذہنی تصور کے ذریعے انسان کے دل میں انتہائی انکسار پیدا کرنا ہے، تاہم اس احتمال کو قطعی اور یقینی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حوالہ جات:

علامہ مجلسیؒ، بحار الانوار، ج 47، ص 36

ایضاً، ج 95، ص 390

ایضاً، ج 47، ص 36

ایضاً، ج 95، ص 391

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha